فَلِذٰلِكَ فَادۡعُ ۚ وَاسۡتَقِمۡ كَمَاۤ اُمِرۡتَۚ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡۚ وَقُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنۡ كِتٰبٍۚ وَاُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَيۡنَكُمُؕ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمۡؕ لَـنَاۤ اَعۡمَالُـنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُكُمۡۚ لَا حُجَّةَ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمُؕ اَللّٰهُ يَجۡمَعُ بَيۡنَنَاۚ وَاِلَيۡهِ الۡمَصِيۡرُؕ ۞ – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلِذٰلِكَ فَادۡعُ ۚ وَاسۡتَقِمۡ كَمَاۤ اُمِرۡتَۚ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡۚ وَقُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ مِنۡ كِتٰبٍۚ وَاُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَيۡنَكُمُؕ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمۡؕ لَـنَاۤ اَعۡمَالُـنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُكُمۡۚ لَا حُجَّةَ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمُؕ اَللّٰهُ يَجۡمَعُ بَيۡنَنَاۚ وَاِلَيۡهِ الۡمَصِيۡرُؕ ۞
ترجمہ:
پس اسی قرآن کی طرف آپ دعوت دیں اور جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اسی پر مستقیم (برقرار) ہیں اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں اور آپ کہیے میں ان تمام چیزوں پر ایمان لایا جو اللہ نے کتاب میں نازل کی ہیں اور مجھے تمہارے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا رب ہے، ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے، اللہ ہم سب کو جمع فرمائے گا اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹنا ہے
تفسیر:
الشوریٰ : ١٥ سے دس مسائل کا ستنباط
پس اسی قرآن کی طرف آپ دعوت دیں اور جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اسی پر مستقیم (برقرار) ہیں اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں اور آپ کہیے میں ان تمام چیزوں پر ایمان لایا جو اللہ نے کتاب میں نازل کی ہیں اور مجھے تمہارے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا رب ہے، ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے، اللہ ہم سب کو جمع فرمائے گا اور اسی کی طرف (سب کو) توٹنا ہے “
یہ آیت کریمہ دس مستقل کلمات پر مشتمل ہے اور ہر کلمہ دوسرے سے منفصل ہے اور آیت الکرسی کے علاوہ اس آیت کی اور کوئی نظیر نہیں ہے، اس میں بھی دس فصول ہیں، اب ہم ان دس کلمات کی تفصیل کررہے ہیں۔
(١) پس آپ اسی قرآن کے متعلق دعوت دیں کیونکہ اہل کتاب نے اپنی ہوائے نفس سے دین میں مختلف فرقے بنالیے ہیں، اس لیے آپ صرف ملت اسلام کی دعوت دیں، جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور آپ سے پہلے ان رسولوں کی طرف وحی کی ہے جن کی شرائع کی پیروی کی جاتی ہے اور تمام لوگوں کو اسی دین کی پیروی کی دعوت دیں۔
(٢) اور جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اسی پر مستقیم (برقرار) رہیں۔ یعنی آپ اور آپ کے متبعین صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مستقیم رہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے اور اس سے سرموانحراف نہ کریں اور صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے، آپ ہی اللہ تعالیٰ کے احکام پر اس طرح عمل کرسکتے ہیں کہ اس کے حکم سے بالکل ادھرادھر نہ ہوں، ورنہ آپ نے امت کے لیے فرمایا :
استقیموا ولن تحصوا۔
مستقیم رہو اور تم ہرگز نہ رہ سکوں گے۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٧، المسند ج ١١ ص ١٣٠، السنن الکبریٰ ج ١ ص ٨٢)
یعنی تم اللہ تعالیٰ کے احکام پر اس طرح جمے نہیں رہ سکتے جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے، پس استقامت کی حقیقت کی طاقت صرف انبیاء (علیہم السلام) کو حاصل ہے یا اکابر اولیاء کو۔
(٣) اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں۔ یعنی اہل کتاب کی باطل خواہشوں اور مشرکین کے کذب وافتراء کی پیروی نہ کریں۔ کیونکہ مشرکین کی خواہش تھی کہ آپ ان کے بتوں کی تعظیم کریں یا کم از کم ان کو بُرا نہ کہیں اور یہودونصاریٰ کی خواہش تھی کہ آپ ان کے قبلہ کی پیروی کریں اور تورات اور انجیل کے احکام کو منسوخ نہ کریں اور سب سے بڑی مصیبت اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنی خواہش پر عمل کرنا ہے، قرآن مجید میں ہے :
ارء یت من اتخذ الھہ ھوہ (الفرقان : 43) کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا۔
ومن اضل ممن اتبع ھوہ بغیر ھدی من اللہ۔ (القصص :50) اور اس سے زیادہ گمراہ اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف سے ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دانائی کی آفت شیخی بگھارنا اور ڈینگ مارنا ہے اور بہادری کی آفت بغاوت ہے اور سخاوت کی آفت احسان جتلانا ہے اور جمال کی آفت جہالت ہے اور حسب ونسب کی آفت فخر ہخے اور سخاوت کی آفت فضول خرچی ہے اور دین کی آفت نفسانی خواہشوں پر عمل کرنا ہے۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٤١٢١، یہ حدیث املعجم الکبیر، شعب الایمان، الجامع الصغیر اور جمع الجوامع میں بھی ہے، لیکن ان میں دین کی آفت کا ذکر نہیں ہے)
(٤) اور آپ کہیے : میں ان تمام چیزوں پر ایمان لایا جو اللہ نے کتاب میں نازل کی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں اور صحائف نازل کیے ہیں، میں ان سب پر ایمان لایا، ان لوگوں کی طرح نہیں جو بعض کتابوں پر ایمان لائے اور بعض پر نہیں۔
(٥) اور مجھے تمہارے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا۔ یعنی احکام شرعیہ کو نافذ کرنے میں معززلوگوں اور پست طبقہ کے لوگوں کے درمیان فرق نہ کیا جائے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے میں کسی کی رورعایت نہ کی جائے اور امیر اور غریب کا فرق نہ کیا جائے۔
(٦) اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا رب ہے۔ یعنی ہمارا خالق اور ہمارا مالک اور ہمارے تمام معاملات کا والی اللہ تعالیٰ ے اور وہی ہماری عبادات کا مستحق ہے نہ کہ بت اور نفسانی خواہشیں۔
(٧) ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں، یعنی ہم نے جو نیک اعمال کیے ہیں ہم اللہ کے فضل سے ان کی جزاء کے امیدوار ہیں اور ہم نے جو برے کام کیے ہیں ہم ان کی سزا کے مستحق ہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمادے اور تم نے جو اعمال کیے ہیں تم ان کے انجام کے مستحق ہو، ہمیں تمہاری نیکیوں سے کسی فیض کی توقع نہیں اور نہ تمہاری برائیوں سے ہمیں کوئی ضرر ہوگا۔
(٨) ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ہے۔ یعنی ہمارے اور تمہارے درمیان جو مخالفت ہے وہ صرف اللہ کے لیے ہے، اگر تم اللہ کی توحید کا اقرار کرلو تو تم ہمارے بھائی ہو۔ یہ حکم آیت جہاد کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، اب ہمارے اور ان کے درمیان تلوار ہے نیز اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب کفار کے سامنے دلائل نہیں پیش کیے جائیں گے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار دلائل سے آپ کا صدق جان چکے ہیں اور محض ہٹ دھرمی کررہے ہیں، اس لیے اب ان کے سامنے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(٩) اللہ ہم سب کو جمع فرمائے گا۔ یعنی قیامت کے دن اور اس دن ان باتوں کا فیصلہ ہوجائے گا جن میں تم ہماری مخالفت کرتے ہو۔
(١٠) اور اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے، اس دن اللہ تعالیٰ ہی حاکم ہوگا اور وہی ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 15