وَالَّذِيۡنَ يُحَآجُّوۡنَ فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِيۡبَ لَهٗ حُجَّتُهُمۡ دَاحِضَةٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ وَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ يُحَآجُّوۡنَ فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِيۡبَ لَهٗ حُجَّتُهُمۡ دَاحِضَةٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ وَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ۞
ترجمہ:
اور جو لوگ اللہ کی دعوت کے مقبول ہونے کے باوجود اس میں جھگڑا کرتے ہیں ان کی کٹ حجتی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور سخت عذاب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور جو لوگ اللہ کی دعوت کے مقبول ہونے کے باوجود اس میں جھگڑا کرتے ہیں ان کی کٹ حجتی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور سخت عذاب ہے اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب کو نازل فرمایا اور میزان کو قائم فرمایا اور (اے مخاطب ! ) تجھے کیا پتا شاید کہ قیامت قریب ہو اس کے جلد آنے کا وہی مطالبہ کرتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور جو لوگ قیامت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں وہ اس کے آنے سے ڈرتے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ وہ برحق ہے، سنو ! جو لوگ قیامت کے وقوع میں جھگڑتے ہیں وہ پرلے درجہ کی گمراہی میں ہیں اللہ اپنے بندوں پر بہت نرمی کرنے والا ہے، وہ جس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور وہ بہت قوت والا، بےحد غلبہ والا ہے (الشوریٰ :16-19)
اسلام کے خلاف یہود کا اعتراض اور امام رازی کی طرف سے اس کا جواب
جب عام لوگوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا اس کے باوجود یہودی اسلام پر اعتراض کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ (سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر سب کا اتفاق نہیں ہے، اس کے برعکس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر اور تورات کے آسمانی کتاب ہونے پر سب متفق ہیں اور مختلف فیہ کے بجائے متفق علیہ شخص کو نبی ماننا چاہیے اور اس کے دین اور اس کی کتاب کو تسلیم کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ نی اس کے جواب میں فرمایا کہ یہود کی حجت باطل ہے، یہود کی حجت باطل ہونے کی ایک وجہ وہ ہے جو امام رازی نے بیان فرمائی ہے اور چند وجوہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس ناکارہ کے ذہن میں القاء فرمائی ہیں، پہلے ہم امام رازی کی بیان کی ہوئی وجہ بیان کررہے ہیں۔
امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ بیان فرماتے ہیں :
تمام یود اس پر متفق ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اس لیے ایمان لانا واجب ہے کہ انہوں نے معجزات پیش کیے تھے اور یہود نے ان معجزات کا مشاہدہ کیا، پس اگر معجزہ کا مشاہدہ نبی کے صدق کی دلیل ہے تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق بھی واجب ہے، کیونکہ آپ نے بھی معجزات پیش کیے ہیں، ورنہ حضرت موسیٰ کی تصدیق بھی ثابت نہیں ہوگی اور جب معجزہ نبی کے صدق کو مستلزم ہے تو جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت ثابت ہوگی تو اسی طرح معجزات کی بناء پر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت بھی ثابت ہوگی (امام رازی کے جواب سے شریعت محمد کی شریعت موسیٰ پر ترجیح ثابت نہیں ہوتی بلکہ دونوں شریعتوں کا برابر ہونا ثابت ہوتا ہے) ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٩٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
یہود کے اعتراض کا جواب مصنف کی طرف سے
مصنف کے نزدیک یہود کی دلیل حسب ذیل وجوہ سے باطل ہے :
(١) یہود نے کہا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ کی کتاب یعنی قرآن مجید مختلف فیہ ہے، اس کے برعکس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کی کتاب یعنی تورات متفق علیہ ہے، ان کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ تورات کا تو نفس وجود اور ثبوت مختلف فیہ ہے۔ ہرچند سال بعد اس کے ایڈیشن میں ترمیم اور تحریف ہوجاتی ہے، تورات کے ١٩٢٧ ء کے ایڈیشن میں لکھا ہے : دس ہزار قدسیوں میں سے آیا۔ (استثناء باب : ٣٣ آیت : ٢ مطبوعہ لاہور) اور ١٩٩٢ ء کے ایڈیشن میں لکھا ہے : لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ (مطبوعہ لاہور)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب میں خود تعارض اور اختلاف ہے، جس زبان میں یہ کتاب نازل ہوئی اب وہ زبان بھی موجود نہیں، غرض یہ کہ یہ کتاب فی نفسہٖ مختلف فیہ ہے، اس کے برخلاف قرآن مجید متفق علیہ ہے، کوئی شخص نہیں بتاسکتا کہ قرآن مجید کی فلاں آیت پہلے اس طرح تھی اب اس طرح نہیں ہے اور تورات کی بہت سی آیات کے متعلق ثابت کیا جاچکا ہے کہ وہ بدل چکی ہیں، پس تورات کا تو اپنا وجود اختلافی ہے اور قرآن کا اپنا وجود اتفاقی ہے، لہٰذا تورات کے مقابلہ میں قرآن مجید پر ہی ایمان لانا چاہیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے بجائے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت پر ایمان لانا چاہیے۔
(٢) موجودہ تورات میں لکھا ہے کہ : نوح نشہ میں اپنے ڈیرہ میں برہنہ ہوگیا۔ (پیدائش باب : ١٠، آیت : ٢٠) لوط کی بیٹیوں نے اپنے باپ کو شراب پلائی اور اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں۔ (پیدائش، باب : ١٩، آیت : ٣٨۔ ٣٢) دائود نے ایک عورت کو برہنہ دیکھا، اس پر عاشق ہوئے، اس کے خاوند کو لڑائی میں موا دیا اور اس کو بیوی بنالیا۔ (سمویل، باب : ١١، آیت ٢٧۔ ٢ ملخصا) سلیمان اجنبی عورتوں سے محبت کرتا تھا۔ (سلاطین، باب : ١١، آیت : ١) موجودہ تورات نے انبیاء (علیہم السلام) کو عیش اور بدکردار بتایا ہے، سو تورات کی تعلیم سے لوگ کس طرح نیک بنیں گے، اس کے برخلاف قرآن مجید انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق فرماتا ہے : ” کل من الصلحین (الانعام : ٨٥) تمام انبیاء صالح اور نیک ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ موجود تورات کے مقابلہ میں قرآن مجید پر ایمان لایا جائے کہ اسی کی آیت نیکی کی تلقین میں موثر ہیں۔
(٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت صرف بنی اسرائیل کے لیے تھی، دنیا کے تمام لوگوں کے لیے نہ تھی، یہی وجہ ہے اب بھی یہودی بنی اسرائیل کے علاوہ اور کسی شخص کو تبلیغ کرتے ہیں نہ اپنے دین میں داخل کرتے ہیں، اس کے برعکس سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت دنیا کے تمام لوگوں اور تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے، اس لیے تورات کے بجائے قرآن مجید پر ایمان لانا واجب ہے۔
(٤) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں بہت سخت احکام ہیں : اگر گناہ ہوجائے تو اس کی توبہ قتل کرنا ہے اور کپڑے پر نجاست لگ جائے تو پاک کرنے کے لیے اس حصہ کا کاٹنا ضروری ہے، غنیمت حلال نہیں ہے، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی سہولت نہیں، مسجد کے سوا کہیں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے برعکس سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں توبہ کے لیے صرف صدق دل سے معافی مانگنا کافی ہے، کپڑے پر نجاست لگ جائے تو اسے پاک کرنے کے لیے صرف پانی سے دھولینا کافی ہے، مال غنیمت حلال ہے، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنا کافی ہے اور تمام روئے زمین پر نماز پڑھنا جائز ہے تو جس شریعت میں احکام آسان ہوں وہ اس شریعت پر راجح ہے جس کے احکام آسان نہ ہوں سو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی شریعت پر ایمان لانا واجب ہے۔
(٥) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت جن معجزات سے ثابت ہوئی مثلاً عصا اور یدبیضاء آج دنیا میں وہ معجزات نہیں ہیں اور ہمارے نبی سیدنا محمد (علیہ السلام) کی نبوت قرآن سیثابت ہوئی اور وہ جس طرح چودہ سو سال پہلے معجزہ تھا آج بھی معجز ہے نہ چودہ سو سال پہلے اس کی کوئی نظیر لاسکا تھا نہ آج لاسکا، نہ چودہ سو سال پہلے اس میں کوئی کمی یا زیادتی ہوئی نہ آج تک ہوسکی، نہ قیامت تک ہوسکے گی۔ سو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین ہی واجب الاتباہ ہے۔
(٦) موجودہ تورات میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم موجود ہے :
خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرکے گا، تم اس کی سننا (استثناء باب : ١٨، آیت ١٥)
اور حدیث میں ہے :
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل کتاب سے کسی چیز کا سوال نہ کرو، وہ تم کو ہرگز ہدایت نہیں دیں گے وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں، تم (ان کی اتباع میں) یا کسی باطل چیز کی تصدیق کرو گے یا کسی حق کا انکار کرو گے، پس بیشک اگر حضرت موسیٰ تمہارے سامنے زندہ ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کے لیے کوئی چیز جائز نہ تھی۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣٣٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٢ ص ٤٦٨، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، ١٦١٩ ھ، مسند البزار رقم الحدیث : ١٢٤، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢١٣٥، سنن بیہقی ج ٢ ص ١١۔ ١٠، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٧٩، مصنف عبدرالزاق رقم الحدیث : ١٠١٥٨، جامع المسانید والسنن مسند جابر : ٣١٠، اس کی بعض اسانید میں جابر جعفی ہے اور وہ ضعیف راوی ہے لیکن امام بزار کی سند میں جابر جعفی نہیں ہے، اس میں بزار ہے، لہٰذا اس سند پر کوئی اعتراض نہیں ہے)
بہرحال اس تفصیل سے ظاہر ہوگیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کی بجائے، ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کو قبول کرنا واجب ہے اور یہودیوں نے جو اسلام کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ کی شریعت کی ترجیح پر حجت قائم کی ہے وہ باطل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
حجتھم داحضۃ (الشوریٰ :16) ان کی حجت زائل ہونے والی ہے۔
” داحضۃ “ کا معنی
اس آیت میں ” داحضۃ “ کا لفظ ہے، یہ دحض سے بنا ہے، اس کا معنی ہے : کسی چیز کا زائل ہونا اور پھسلنا۔ علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ نے لکھا ہے : ” دحض برجلہ “ کا معنی ہے : اس کا پیر پھسل گیا اور ” والشمس زالت “ کا معنی ہے : دھوپ زائل ہوگئی۔ ” والحجۃ دحوضا “ کا معنی ہے : دلیل باطل ہوگئی۔ (القاموس : ٦٤٢، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ)
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ نے لکھا ہے : اس کے معنی ہے : باطل ہونا، زائل ہونا، قرآن مجید میں ہے :
وبجادل الذین کفروا بالباطل لید حضوا بہ الحق۔ (الکہف :56)
کفار باطل کے سہارے جھگڑتے ہیں تاکہ اس سے حق کو ڈگمگادیں۔ (المفردات ج ١ ص ٢٢١، مکتبہ نزار مصطفی، بیروت، ١٤١٨ ھ)
علامہ محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں : دحض کا معنی ہے : پھسلنا، حدیث میں ہے :
ان دون جسر جھنم طریقا ذا دحض
دوزخ کے پاس پھسلنے والا راستہ ہے۔ (مسند احمد ج ٥ ص ١٥٩ )
کرھت ان اخرجکم فتمشون فی الطین والدحض۔
میں نے تمہیں گھر سے نکالنے کو ناپسند کیا کہ تم کیچڑا اور پھسلن میں چلو گے۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٩٠١)
(لسان العرب ج ٥ ص ٢٢٤، دارصادر، بیروت، ٢٠٠٣ ء)
علامہ ابن منظور کی نقل کردہ احادیث دراصل علامہ ابن اثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ نے پیش کی ہیں۔ (النہایہ ج ٢ ص ٩٩۔ ٩٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 16