أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَهُوَ الَّذِىۡ يَقۡبَلُ التَّوۡبَةَ عَنۡ عِبَادِهٖ وَيَعۡفُوۡا عَنِ السَّيِّاٰتِ وَيَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو جانتا ہے

الشوریٰ : ٢٥ میں فرمایا :” اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو جانتا ہے “

توبہ کا لغوی اور عرفی معنی

اللہ تعالیٰ کے توبہ قبول کرنے کا معنی یہ ہے کہ جس گناہ سے بندہ توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزا نہیں دیتا اور اس پر مواخذہ نہیں کرتا اور بندے کی توبہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس سے جو گناہ ہوگیا ہے اس پر نادم ہو اور دوبارہ اس گناہ کو نہ کرنے کا عزم صمیم کرے۔ اگر اس سے فرائض اور واجبات رہ گئے ہیں تو ان کو قضا کرے، اگر کسی کا مال غصب کرلیا تھا یا چوری کرلیا تھا تو اس کا مال اس کو واپس کردے اور جس طرحپہلے اس نے گناہ میں کوشش کی تھی اسی طرح اب اطاعت اور عبادت میں کوشش کرے اور جس طرح اس کو پہلے گناہ میں لذت حاصل ہوئی تھی اس عبادت میں لذت حاصل کرے اور ہنسنا کم کردے اور روئے زیادہ۔

توبہ کے متعلق احادیث

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن اپنے گناہوں کو اس طرح سمجھتا ہے گویا کہ وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور اس کو یہ خطرہ ہے کہ وہ پہاڑ اس کے اوپر گرپڑے گا اور فاجر اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے اس کی ناک پر مکھی بیٹھی ہوئی ہے اور وہ ہاتھ جھٹک کر اس مکھی کو اڑادے گا، پھر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو اپنی سواری سے کسی مقام پر پہنچا اور اس سواری پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں تھیں، اس نے سواری سے اتر کر اپنا سر رکھا اور سوگیا اور جب وہ بیدار ہوا تو اس کی سواری وہاں سے جاچکی تھی، گرمی بہت شدید تھی اور اس کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی، وہ پھر اپنی جگہ لوٹ آیا اور پھر سوگیا، پھر سر اٹھا کر دیکھا تو اس کی سواری وہاں موجود تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٠٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٤٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٩٧، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٦٦ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص یہ ہرگز نہ کہے کہ اے اللہ ! اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما اور اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما، اس کو چاہیے کہ پورے عزم اور اصرار سے سوال کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجور کرنے والا نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٩٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٥٤، مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣١٨، دارالفکر، بیروت، تتمہ جامع المسانید والسنن مسند ابی ہریرہ رقم الحدیث : ٤٨٨٢)

حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک تمہارا رب تبارک وتعالیٰ حیاء دار کریم ہے، جب اس کا بندہ اس کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹانے سے حیاء فرماتا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٥٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٦٦ )

ابی الجون بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو توبہ کرنے والے توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی پیاسے کو پانی پر جانے سے خوشی ہوتی ہے اور جتنی بانجھ عورت کو بچہ کی پیدائش سے خوشی ہوتی ہے اور جتنی کسی شخص کو گمشدہ چیز کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے، پس جو شخص اللہ تعالیٰ سے خالص توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ کراماً کاتبین سے اور اس کے اپنے اعضاء سے وہ گناہ بھلا دیتا ہے اور تمام روئے زمین سے اس کے گناہوں کے آثار مٹا دیتا ہے۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٧١٩٤، کنز العمال رقم الحدیث : ١٠٢٧٣)

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 25