وَيَسۡتَجِيۡبُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَيَزِيۡدُهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 26
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيَسۡتَجِيۡبُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَيَزِيۡدُهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ۞
ترجمہ:
اور ایمان والوں کی اور نیک کام کرنے والوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور اپنے فضل سے ان کی نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے اور کافروں کے لیے سخت عذاب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور ایمان والوں کی اور نیک کام کرنے والوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور اپنے فضل سے ان کی نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے اور کافروں کے لیے سخت عذاب ہے اگر اللہ اپنے سب بندوں پر رزق کشادہ کردیتا تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرتے، لیکن اللہ جتنا چاہے ایک اندازے سے رزق نازل فرماتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں کی مکمل خبر رکھنے والا، خوب دیکھنے والا ہے وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہونے کے بعد بارش نازل فرماتا ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے اور وہی مددگار ہے، بہت حمد کیا ہوا اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنا ہے اور ان جانداروں کو پیدا کرنا ہے جو اس نے آسمانوں اور زمینوں میں پھیلا دیئے ہیں اور وہ جب چاہے ان کو جمع کرنے پر قادر ہے۔ (الشوریٰ :26-29)
مسلمانوں کی بعض دعائیں قبول نہ فرمانے کی حکمتیں
الشوریٰ : ٢٦ میں فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کی دعا قبول فرماتا ہے، حالانکہ بعض اوقات مؤمنین صالحین کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں، اس کے مفصل جواب تو ہم ” وقال ربکم ادعونی استجب لکم “ (المومن :60) میں بیان کرچکے ہیں اور اس کے بعض جوابات پر مشتمل احادیث کو ہم یہاں بیان کررہے ہیں :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بندہ کی دعا کے بعد تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور حاصل ہوتی ہے یا تو اس کا کوئی گناہ معاف کردیا جاتا ہے یا اس کے لیے کسی خیر کو ذخیرہ کرلیا جاتا ہے یا اس کو کسی نیک عمل کی توفیق دی جاتی ہے۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٧٤٩، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٢٩ )
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص بھی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا سوال پورا کردیتا ہے یا اس سے اس دعا کی مثل کوئی مصیبت دور کردیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٨١، مسند احمد ج ٣ ص ٣٦٠، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ١١٥٣ )
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں : جب اللہ عزوجل کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو اس کے اوپر مصائب ڈال دیتا ہے اور جب بندہ اللہ سے دعا کرتا ہے تو جبریل عرض کرتے ہیں : اے رب ! اس کی حاجت پوری کردے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : رہنے دو مجھے اس کی آواز اچھی لگتی ہے، پھر جب وہ (دوبارہ) دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے میرے بندے، لبیک، مجھے میری عزت کی قسم ! تو مجھ سے جس چیز کا بھی سوال کرے گا میں تجھ کو وہ عطا کروں گا اور مجھ سے چس چیز کی بھی دعا کرے گا میں تیری دعا قبول کروں گا، یا تو تجھ کو جلدی وہ چیز دے دوں گا یا تیرے لیے آخرت میں اس چیزکا ذخیرہ کرلوں گا۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٩٧٢، کنز العمال رقم الحدیث : ٩١٨)
اللہ تعالیٰ مومن کی دعا کیوں کر قبول نہیں فرمائے گا جب کہ وہ مومن دعا کرنے سے خوش ہوتا ہے اور اس کے دعا نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے، حدیث میں ہے :
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے فضل سے سوال کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند فرماتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور افضل عبادت کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٧١، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن مسعود رقم الحدیث : ٦٥٥ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔ (سنن الترمذی رقمالحدیث : ٣٣٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٢٧، المستدرک ج ١ ص ٤٩١، مسنداحمد ج ٢ ص ٤٤٢ )
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے جو شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ سے سب سے اچھا سوال یہ ہے کہ اس سے عافیت کا سوال کیا جائے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٨، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ ابن عمر رقم الحدیث : ٢٧٨٤)
اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین صالحین کی دعا قبول فرماتا ہے، اس وجہ سے اس میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی دعا قبول فرماتا ہے یا نہیں، بعض علماء نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی دعا قبول نہیں فرماتا کیونکہ دعا قبول کرنا دعا کرنیوالے کی تعظیم ہے اور کافر تعظیم کے لائق نہیں ہے اور بعض علماء نے کہا کہ بعض اعتبار سے کافر کی دعا بھی قبول کرنا جائز ہے اور اس آیت میں قبولیت دعا کی مؤمنوں کے ساتھ اس لیے تخصیص فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کی دعا قبول فرما کر مؤمنین کو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے اور کافروں کی دعا کو بطور استدراج قبول فرماتا ہے یعنی ان کو ان کی فریب خوردگی میں مبتلا رکھنے کے لیے ان کی دعا قبول فرمالیتا ہے اور آخرت میں ان کو سخت عذاب ہوگا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 26