يَسۡتَعۡجِلُ بِهَا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِهَا ۚ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡهَا ۙ وَيَعۡلَمُوۡنَ اَنَّهَا الۡحَقُّ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُمَارُوۡنَ فِى السَّاعَةِ لَفِىۡ ضَلٰلٍۢ بَعِيۡدٍ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 18
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَسۡتَعۡجِلُ بِهَا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِهَا ۚ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡهَا ۙ وَيَعۡلَمُوۡنَ اَنَّهَا الۡحَقُّ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُمَارُوۡنَ فِى السَّاعَةِ لَفِىۡ ضَلٰلٍۢ بَعِيۡدٍ ۞
ترجمہ:
اس کے جلد آنے کا وہی مطالبہ کرتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور جو لوگ قیامت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں وہ اس کے آنے سے ڈرتے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ وہ برحق ہے، سنو ! جو لوگ قیامت کے وقوع میں جھگڑتے ہیں وہ پرلے درجہ کی گمراہی میں ہیں
عجلت کی مذمت اور اطمینان سے کام کرنے کی فضیلت
الشوریٰ : ١٨ میں فرمایا : ” اس (قیامت) کے جلد آنے کا مطالبہ وہی کرتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے “۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کام میں جلدی کرنا مذموم ہے، حدیث میں ہے : حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
التانی من اللہ والعجلۃ من الشیطان۔
اطمینان سے کام کرنا اللہ کی جانب سے ہے اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے۔
(مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٣٢٥٦، سنن بیہقی ج ١٠ ص ١٠٤)
عجلت مذموم ہونے کے عموم سے چھ چیزیں مستثنیٰ ہیں : (١) نماز کا مستحب وقت آنے کے بعد نماز پڑھنے میں جلدی کرنا (٢) جب جنازہ تیار ہوجائے تو اس کی تدفین میں جلدی کرنا (٣) جب کنواری لڑکی کا کفو میں رشتہ مل جائے تو اس کے نکاح میں جلدی کرنا (٤) جب قرض ادا کرنے کی گنجائش ہو تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرنا (٥) جب مہمان آئے تو اس کو کھانا کھالنے میں جلدی کرنا (٦) شامت نفس سے اگر گناہ ہوجائے تو اس کے بعد توبہ کرنے میں جلدی کرنا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک حکمت کی وجہ سے وقوع قیامت کی خبر نہ دینا
اس آیت میں فرمایا ہے : ” اور (اے مخاطب ! ) تجھے کیا پتا شاید کہ قیامت قریب ہو “۔
قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ جب اس میں ” وما ادراک “ کا لفظ ہو تو اس چیز کا بیان متوقع ہوتا ہے اور جب ” وما بدریک “ کا لفظ ہو تو اس کا بیان متوقع نہیں ہوتا، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
لا تاتیکم الا بغتۃ۔ (الاعراف :187)
قیامت تمہارے پاس اچانک ہی آئے گی۔
اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں بیان فرمایا کہ قیامت کب آئے اور نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمایا اور جب بھی آپ سے قیامت کے متعلق سوال کیا جاتا تھا آپ طرح دے جاتے تھے اور ٹال جاتے تھے، اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے متعلق سوال کیا، پس کہا : قیامت کب واقع ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : تم نے قیامت کی کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے کہا : کچھ نہیں، سوا اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : تم جس کے ساتھ محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ رہو گے، حضرت انس (رض) نے کہا : میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر سے اور حضرت عمر سے اور مجھے امید ہے کہ میں ان ہی کے ساتھ ہوں گا کیونکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں خواہ میں ان جیسے عمل نہ کروں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٨٨، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٣١٧، مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٠٩٩، عالم الکتب، مسند حمیدی رقم الحدیث : ١١٩٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٦٣٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٦٩، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٨١٠)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : یارسول اللہ ! قیامت کب واقع ہوگی ؟ اس وقت آپ کے پاس انصار میں سے ایک لڑکا بھی تھا، آپ نے فرمایا : اگر یہ لڑکا زندہ رہا تو جب تک یہ بوڑھا نہیں ہوگا قیامت نہیں آئے گی (یعنی یہ لڑکا بوڑھا ہونے سے پہلے مرجائے گا) ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٢٦٩، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٣٠٦، دارالفکر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
کون سا علم باعث فضیلت ہے ؟
نیز اس آیت میں فرمایا ہے : ” اور جو لوگ قیامت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں وہ قیامت کے آنے سے ڈرتے ہیں، سنو ! جو لوگ قیامت کے وقوع میں جھگڑتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں “۔
آیت کے اس حصہ میں علم یقین کی مدح اور فضیلت ہے اور تردد اور شک کی مذمت ہے، سو مسلمان کو چاہیے کہ وہ علم یقین کو حاصل کرے اور تردد اور شک سے نکل آئے، تاہم علم اس وقت قابل تعریف ہے جب اس کے ساتھ خوف خدا بھی ہو اور علم کے تقاضے پر عمل بھی ہو، ورنہ ابلیس کو حضرت آدم کی نبوت کا علم تھا، فرعون کو حضرت موسیٰ کی نبوت کا علم تھا، ابوجہل اور یہود کو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم تھا، لیکن چونکہ ان کو خوف خدا نہ تھا اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے اور کتنے ہی خوف خدا سے خالی علماء قیامت کے دن عذاب میں گرفتار ہوں گے، کیونکہ وہ اپنے علم کے تقاضوں کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے۔
القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 18