ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کا فوز مبین پروجیکٹ
ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کا فوز مبین پروجیکٹ
آج 2021-7-4 بروز اتوار معروف ماہر توقیت علامہ محمد عرفان رضوی صاحب خصوصی طور پر ملاقات کے لیے کراچی سے بذریعہ ٹرین بہاولپور تشریف لائے – سات گھنٹے کی طویل نشست رہی.
انہیں ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی کی طرف سے امام علم و فن اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فوز مبین در رد حرکت زمین کو جدید تر معیار تحقیق کے ساتھ منظر عام پر لانے کی ذمے داری سونپی گئی ہے.
یاد رہے کہ رد حرکت زمین پر اعلی حضرت کی یہ تحقیق آپ کی عمر مبارک کے آخری دو سالوں کی ہے، یعنی وہ ایام جبکہ آپ کا علم و فن پختگی کی معراج کو پہنچ چکا تھا اور جس کی وسعتوں کا عمیق سمندر زبردست ٹھاٹھیں مار رہا تھا..
حضرت امام نے ضروری سمجھا کہ اس موضوع پر امت کو صحیح نظریہ پہنچا کر دنیا سے تشریف لے جائیں.
اس وقت چونکہ ہر طرف حرکت زمین کے نظریے کا دور دورہ ہے اور سکون زمین کے نظریے کو نہایت تعجب کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اسے حماقت سمجھا جاتا ہے… ایسے میں ضروری ہے کہ اپنے امام کے قرآن و سنت اور مضبوط سائنسی دلائل سے ثابت شدہ نظریے کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کی جائے.
حضرت امام نے اس موضوع پر تین کتب تحریر فرمائیں.
(1)معین مبین بہر دور شمس و سکون زمین (1338ھ)
(2)فوز مبین در رد حرکت زمین (1338)
(3)نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان (1339)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اعلی حضرت کا یہ کام 1338 اور 1339 کا ہے جبکہ آپ کا وصال مبارک ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1340 کا ہے..
اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے پہلی دو کتب میں خالصتا سائنسی دلائل سے بات کی ہے ۔ جبکہ تیسری اور آخری کتاب آیات قرآنیہ کی روشنی میں تحریر فرمائی ہے. اس میں آپ لکھتے ہیں کہ حرکت زمین کا نظریہ، ایمان پہ حرف لاتا ہے ۔
حضرت امام کے آخری عمر مبارک کے اس نظریے کو جو کہ چودہ سو سالہ اسلامی نظریے ہی کا تسلسل ہے یوں یکسر رد نہیں کیا جاسکتا ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جو دلائل دیے ہیں ان کو گہری نظرسے سمجھنا از حد ضروری ہے..
اس نظریے سے اتفاق نہ رکھنے والے والے جملہ حضرات، اصولی طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے اعلی حضرت کے پیش کردہ جملہ دلائل کا دقت نظر سے مطالعہ کریں ۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ مطالعہ تا حال مفقود ہے، اکثریت ان دلائل کو سمجھنے ہی کی صلاحیت سے بے بہرہ ہے ۔ معدودے چند لوگ جو اس علم سے واقف ہیں انہوں نے بھی بوجوہ ان دلائل کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا ۔
المیہ یہ ہے کہ اعلی حضرت کا وصال مبارک 1921 کا ہے جبکہ فوز مبین کی اشاعت کئی دہائیوں بعد بریلی شریف سے 1988 میں ہوئی ۔
یہ کتنا بڑاظلم ہے کہ ہم سو سال گزرنے کے بعد بھی حضرت امام کے علوم و فنون کا نہ تو مکمل مطالعہ کر سکے اور نہ ہی انہیں صحیح معنوں میں اہل علم کے درمیان متعارف کروا سکے.
ادارہ تحقیقات امام احمد رضا مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے اعلی حضرت کے اس موقف پر تحقیق کی ٹھانی اور سائنسی دنیا کے ایک بہت بڑے بت کدے پر تیشہ ابراہیمی چلانے کا سوچا ۔
یقینا یہ ایک بہت بڑا علمی مشقت کا کام ہے.
سر دست ملک بھر سے اس پرجیکٹ پر کام کرنے کے لیے 20 افراد کا انتخاب کیا گیا ہے جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے. بندہ ناچیز ادارے کا سپاس گزار ہے ۔
نیز ان 20 افراد میں سے ایک شریک کا ر ہمارے پیارے دوست حضرت قبلہ حمزہ مصطفائی (چوھدری مختار احمد) صاحب بھی ہیں ۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب مد ظلہ بھی اس تحقیقی کام کی بھرپور حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں.
اگر علوم وفنون میں دسترس رکھنے والے کوئی دوسرے مضبوط ساتھی بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بننے کے خواہش مند ہوں اور وقت بھی دے سکتے ہوں تو وہ قبلہ علامہ عرفان رضوی صاحب (03323531226) سے رابطہ فرما سکتے ہیں ۔
از : عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور