برطانیہ میں اہل سنت و جماعت اور عصرِ موجود کے تقاضے !!
از محمد سجاد رضوی۔ ہیلی فیکس UK
برطانیہ میں اہل سنت و جماعت اور عصرِ موجود کے تقاضے !!
اگرچہ اہل سنت و جماعت کا ٹائیٹل صرف پاکستان اور انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ حدیث نبوی ﷺ سے مستنبط نام ہے جس کا مصداق ایسی جماعت ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب و اہل بیت رضی اللہ تعالی عنھم کے راستے پہ ہے مگر چونکہ اس وقت برطانیہ میں موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد ‘ یا پھر کم از کم احقر جس کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے ‘ کی بیک گراونڈ پاکستان سے ہے اس لئیے اس شذرے میں اسی تناظر میں کچھ کلمات پیش کرنے کا ارادہ ہے۔
پچھلے پچاس سال کے دورانیے میں اگر “برطانوی پاکستانی اہل سنت” کا جائزہ لیا جائے تو معاشی گراف ترقی کا واضح اشارہ دیتا ہے دینی اداروں اور مساجد کی تعداد بھی تیزی سے بڑھی ہے جبکہ ہماری نئی نسل یہاں سے تعلیم پانے کے بعد اچھی پوسٹوں پہ کام کر رہی ہے۔ ابتدائی طور پہ آنے والوں میں چونکہ اکثر زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے اور مرکزِ نگاہ بھی “معاشی ترقی” رہا لہذا پہلی اور دوسری نسل میں گیپ gap ایک فطری بات ہے جس کا احساس نمایاں ہے چونکہ ہجرت کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد کشمیر سے تعلق رکھتی ہے اور تقریباً 90 فیصد (کم از کم بوقت ہجرت ) اہل سنت و جماعت (جسے ہمارے برطانوی ماہرین اپنی تحقیقات میں ‘صوفی’ کہتے ہیں) کے افراد تھے۔ پاکستان اور کشمیر سے آنے والے زیادہ سامان تو ہمراہ نہ لائے مگر اس زمانے میں ایک مصلیٰ (جائے نماز) ‘ قرآن مجید کا نسخہ اور محبّت دین کا اثاثہ تقریباً ہر ایک کے ہمراہ تھا۔
ایک اور دو کمرے کے مکان سے شروع ہونے والی مسجدیں ‘ دو دو اور پانچ پانچ ملین پاونڈ کے منصوبوں میں ڈھل کر دیدہ زیب عمارتوں کا روپ دھار گئیں ۔ راہنمائی کےلیے جہان جس کا رابطہ تھا’ امام اور دینی راہنما منگوائے گئے’ ظاہر ہے ایک بڑی تعداد پاکستان اور کشمیر سے ہی تشریف لائی۔ اور پھر “صوفیوں” کی جماعت ہو اور “پیر صاحب ” نہ ہوں’ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔ بہت سے مشائخ اور خلفاء نے اس “ارضِ ولایت ” کو زیبائی بخشی۔ ہماری قوم (پاکستان ‘ کشمیر اور انڈیا) کے تصوف پسند لوگ تعویذ اور دم کے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔ ویسے تو ‘دم’ کے بغیر کوئی بھی انسان نہیں رہ سکتا مگر یہ دم جو لبوں کی مسلسل تیز حرکت اور بند آنکھوں کو کبھی کبھار نیم وا کرکے کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے “رشحات” دم کروانے والے چہرے اور کبھی یہ تبرکات ارادت مند کے لائے ہوئے پانی یا چینی وغیرہ کی حقیقت میں غوطہ زن ہو کر ‘ طالب صادق کی امیدوں کا شجرِ قوی بنتے ہیں یہاں مراد ہے
اسلام بڑا سادہ نظامِ حیات ہے مگر ہماری ذاتی خواہشات جب لاعلمی اور “امتیاز پسند طبیعت” سے بغلگیر ہوتی ہیں تو کئی کرشمے معرضِ وجود میں آتے ہیں “شیخ کامل” کی کرامات جب مرید صادق کی زباں سے جاری ہوتی ہیں تو (دور حاضر کے قحط الرجالی دور میں جب تصوف کے نام پہ دھندا عام ہے) تو ہر جماعت کا ایک الگ انسائیکلوپیڈیا ترتیب پاتا ہے۔ برطانیہ میں تشریف لانے والے دینی راہنماؤں نے مسلمانوں کی راہنمائی میں اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ ادارے قائم کئے اور مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ مبذول کرائی ۔۔۔ مگر مشائخ کے باہمی اختلافات ( جسے شاید رحمت سمجھا گیا) نے برطانوی اہل سنت و جماعت کو ایک پلیٹ فارم جہاں سے وہ اپنا دینی اور سیاسی موقف اتفاقِ رائے سے پیش کر سکیں ‘ قاصر رکھا۔ شاید ابتدائی حوائج نے اتفاقاً ایک اجتماعی شکل میں ڈھالا ہو تو الگ بات مگر اب تو ہر جماعت حق کی پیامبر اور ہر آستانہ خزانہ غیبی سے آراستہ ہے۔ ظاہری لباس مثلاً عمامہ و ٹوپی یا وضع قطع میں تو فرق اتنا اہم نہیں ‘ مان لیا کہ پہچان ہے مگر تصوف کے شفاف گھاٹ سے سیر شکم ہونے کا دعویٰ کرنے والے کئی گروہوں میں ایسے متفرق ہوئے کہ آسمانِ برطانیہ نے گوناگوں نظاروں سے جی بہلایا ۔
جہاں تک اہلِ سنت کے تنظیمی احوال کا ذکر ھے ماضی کے اوراق کو کریدے بغیر آج “اہل سنت و جماعت ” کے نام سے چار جماعتیں ہیں چاروں سنی حنفی بریلوی ہیں ان کے ایجنڈے کے مطابق عقائد و اعمال کے حوالے سے ایک جیسی ہیں مگر ہر جماعت دوسرے سے جدا بلکہ متوحش ھے۔ جہاں تک فعالیت کا تعلق ھے تو رمضان و عید کے چاند کا اعلان ‘ اور ایک سالانہ کیلنڈر و “کانفرنس” کے انعقاد کے سوا سب کچھ عنقا ہے۔ ہاں کوئی عالم یا معروف ہستی کا وصال ہو جائے تو حسبِ ذوق تعزیتی ریفرنس بھی جاری کیا جاتا ہے۔
*جاری ہے مزید کےلئے انتظار فرمائیں ۔ مشورے سے بھی نوازیں اگر آپ چاہیں !!
30/06/2021