امام ابن ابی لیلیٰ ؓ کے ایک فتوے پر زبردستی فقہی گرفت
امام اعظم ابو حنیفہؓ نعمان بن ثابت کی امام ابن ابی لیلیٰ ؓ کے ایک فتوے پر زبردستی فقہی گرفت
بزبانی امام سید المحدثین علی بن مدینیؒ
ازقلم: اسد الطحای الحنفی
امام ابن عبدالبر اپنی مشہورتصنیف الانتقاء میں ایک روایت اپنی سند سے بیان کرتے ہیں :
قال أبو يعقوب نا أبو علي أحمد بن عثمان الحافظ قال نا عبد الله بن محمد الضبى قال سمعت على بن المديني يقول حدثت أن رجلا من القواد تزوج امرأة سرا فولدت منه ثم جحدها فحاكمته إلى ابن أبي ليلى فقال لها هات بينة على النكاح فقالت إنما تزوجني على ان الله عز وجل الولى والشاهدان الملكان فقال لها اذهبى وطردها فأتت المرأة أبا حنيفة مستغيثة فذكرت ذلك له فقال لها ارجعي إلى ابن أبي ليلى فقولي له إني قد أصبت بينة فإذا هو دعا به ليشهد عليه قولي أصلح الله القاضي يقول هو كافر بالولي والشاهدين فقال له ابن أبي ليلى ذلك فنكل ولم يستطع أن يقول ذلك وأقر بالتزويج فألزمه المهر وألحق به الولد
امام علی بن مدینی بیان کرتے ہیں :
مجھے یہ بات بتائی گئی کہ اونٹوں کو ساتھ لے کر جانے والوں میں سے ایک شخص نے کسی عورت کے ساتھ پوشیدہ طور پر شادی کر لی ، اس عورت نے اس شخص کے بچہ کو جنم دیا
تو اس شخص نے اس عورت (کے دعویٰ) کا انکار کر دیا ، میں (علی بن مدینی) اس (عورت) کا مقدمہ لے کر قاضی ابن ابی لیلیٰ کے پاس گیا ،
تو قاضی (ابن ابی لیلی) نے اس عورت سے کہا : تم نکاح کے گواہ پیش کرو!
اس عورت نے کہا : ا س شخص نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمارے نکاح کا ولی اللہ تعالیٰ ہوگا ، اور گواہ دونوں فرشتے ہونگے۔
قاضی (ابن ابی لیلی) نے اس (عورت) کو وہاں سے نکال دیا ، وہ عورت مدد حاصل کرنے کے لیے امام ابو حنیفہؓ کے پاس آئی اور ان کے سامنے یہ ساری صورت حال بیان کی
تو امام ابو حنیفہؓ نے اس عورت سے کہا : تم ابن ابی لیلیٰ کے پاس واپس جاو ، اور اس سے کہو : مجھے ایک گواہ مل گیا ہےاور جب قاضی اس گواہ کو بلوانے کا کہے ، تاکہ وہ گواہ اس کےسامنے گواہی دے ، تو تم یہ کہنا : اللہ قاضی صاحب کو سلامت رکھے ! وہ گواہ یہ کہتا ہے کہ وہ ولی (اللہ) اور دونوں گواہوں (یعنی فرشتوں ) کا منکر ہے ۔
اس عورت نے یہ بات ابن ابی لیلیٰ کو کہی تو وہ پریشان ہو گئے اور انہوں نے اس شادی کو بر قرار رکھا ، مرد پر مہر کی ادائیگی لازم قرار دی اور بچہ کو اس سے منسوب کر دیا
[الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم، ص [154
تفصیل :
اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ :
عورت جو دیہاتی تھی اس کو ایک بندے نے یہ کہہ کر شادی پر منا لیا کہ ہماراولی اللہ اور گواہ فرشتے ہیں
لیکن جب وہ قاضی ابن ابی لیلیٰ کے پاس گئی جب اسکا شہر مکر گیا تھا تو ابن ابی لیلیٰ نے شرعی گواہوں کا مطالبہ کیا تھا جبکہ وہ دیہاتی عورت نے وہی الفاظ کہے جو اسکے شہر نے کہے تھے کہ ہمارا ولی اللہ اور گواہ فرشتے ہیں
تو امام ابن ابی لیلیٰ قاضی نے اس عورت کو نکال باہر کیا کیونکہ اس کے پاس شرعی قاضے تھے نہیں تو اللہ کو ولی بنا کر اور فرشتوں کو گواہ بنا کر کون شادی کرتا ہے
لیکن جب امام ابو حنیفہ کے پاس وہ آئی اس مشکل وقت میں کہ اسکا شہر اب شادی سے مکر رہا ہے اور وہ اسکے بچے کی ماں بننے والی ہے اور اس نے نکاح پھنسا پھسلا کر یوں کیا کہ اللہ و اور اسکے فرشتوں کو گواہ بنایا ۔
تو امام ابو حنیفہ نے جو یہ بریک بات کی کہ ان ابی لیلی کو کہنا کہ گواہ مل گیا ہے لیکن ابن ابی لیلیٰ کے مطالبہ پر کہنا کہ وہ اللہ اور فرشتوں کا منکر ہے
اس سے ابن ابی لیلیٰ کو اپنے ایمان کی فکر پڑ گئی۔۔
کہ عورت نے تو اپنی کم علمی کی وجہ سے فرشتوں اور اللہ کو گواہ مان کر نکاح کر لیا
اور
میں اس عورت گواہی قبول نہیں کر رہا تو یوں میں بھی اللہ اور اسکے فرشتوں کا منکر ہوں تبھی تو اسکی یہ گواہی قبول نہیں کر رہا اس وجہ سے امام ابن ابی لیلیٰ پریشان ہو گئے تھے
اورعورت کا نکاح بر قرار رکھ دیا اور حق مہر بھی دیا ۔
سند کے رجال کا تعارف!!
پہلے راوی : امام ابو یعقوب الصیدلانی ثقہ ہیں امام ابن عبدالبر نے انکی توثیق ضمنی کی ہے
اور یہ امام عقیلی کے شاگرد تھے ان سے کتاب الضعفاء للعقیلی روایت کرنے والے ہیں
اور
سنابلی اور اثری بھی اسکی توثیق کے قائل ہیں اور امام ابن عبدالبر سے توثیق ضمنی کو دلیل بنایا ہے ۔
دوسرے راوی : امام حافظ احمد بن عثمان الصبھانی
امام ابن عبدالبر انکو حافظ کا لقب دیتے ہیں نیز امام ابو نعیم انکے بارے لکھتے ہیں :
-
أحمد بن عثمان بن أحمد أبو علي الأبهري الخصيب توفي في ذي القعدة سنة ثمان وثلاثين وثلاثمائة، روى عن العراقيين، صاحب بيان وتصانيف يعرف بالجابري من ولد جابر بن زيد أبي الشعثاء حدثنا عبد العزيز بن محمد الكسائي، ثنا أحمد بن عثمان
احمد بن عثمان الابھری یہ عراق والوں سے روایت کرتے ہیں اور صاحب تصانیف تھے اور اچھا بیان کرنے والے تھے ۔
[أخبار أصبهان برقم: 181]
نیز امام سمعانی انکے بارے فرماتے ہیں :
أبو على احمد بن عثمان ابن احمد الأبهري الخصيب من ابهر أصبهان كثير الحديث عن العراقيين والأصبهانيين، له مصنفات وهو من ولد ابى الشعثاء جابر بن زيد، حدث عن إبراهيم بن أسباط بن السكن، روى عنه ابو بكر احمد بن موسى بن مردويه الحافظ
ابو علی احمد بن عثمان ابری خصیب یہ اصبھان سے تھے اور کثرت حدیث والے تھے یہ عراق والوں سے روایت کرتے ہیں اصبھان والوں سے ۔ انکی مصنفات (کتب ) ہیں یہ ابراہیم بن اسباط سے بیان کرتے ہیں اور ان سے ابن مرودیہ حافظ
[الأنساب للسمعانی برقم : 106]
امام قسیرانی انکی تفصیل بیان کرتے ہوئے انکوثقہ نقل کیا ہے
واحمد بن عثمان بن احمد الأبهري الخصيب أبو سهل سمع إبراهيم بن أسباط بن السَّكن زوى عنه أبو بكر بن مردوية ووثّقهُ،
[الأنساب المتفقة في الخط المتماثله في النقط والضبط بابن القيسراني (المتوفى: 507هـ)]
تیسرے راوی : عبداللہ بن محمد بن العباس الجمری شاگرد امام علی بن مدینی
یہ قلیل الروایات تھے
اور امام طبرانی کے شیوخ میں سے تھے ان سے اپنی معجم میں روایت بیان کرتے ہیں ابن مدینی سے :
-
حدثنا عبد الله بن محمد بن العباس الضبي الجمري البصري، في بني جمرة , حدثنا علي بن المديني الخ۔۔۔
[معجم الکبیر برقم : 620]
اس روایت پر حکم لگاتے ہوئے امام ہیثمی نے رجال کے ثقات کا حکم لگایا ہے
. رواه الطبراني في الثلاثة، ورجاله ثقات.
[مجمع الزوائد برقم : 17161]
اور اگر کوئی کہے کہ وہ متساہل ہیں بعض اوقات توثیق میں وہ منفرد ہوتے ہیں تو اس توثیق میں وہ منفرد نہیں بلکہ امام منذری نے بھی اس راوی کی ضمنی توثیق میں موافقت کی ہے
جیسا کہ اسی مذکورہ روایت کو الترغیب میں تخریج کرتے ہوئے روایت کو جید الاسناد قرار دیا
-
وَعَن رَافع بن خديج رَضِي الله عَنهُ الخ۔۔۔
وَرَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ فِي الثَّلَاثَة بِاخْتِصَار بِإِسْنَاد جيد
[الترغيب والترهيب من الحديث الشريف برقم: 2339 (المنذري المتوفى: 656هـ)]
تو اس تحقیق سے ثابت ہوا یہ راوی حسن الحدیث ہے
اور اگلے راوی امام علی بن مدینی ہیں
تحقیق : دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی