أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَفَنَضۡرِبُ عَنۡكُمُ الذِّكۡرَ صَفۡحًا اَنۡ كُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّسۡرِفِيۡنَ ۞

ترجمہ:

تو کیا ہم اس وجہ سے تم کو نصیحت کرنے سے اعراض کریں کہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو

کفار مکہ کی شقاوت اور ایذاء رسانی

الزخرف : ٥ میں فرمایا :” تو کیا ہم اس وجہ سے تم کو نصیحت کرنے سے اعراض کریں کہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو “

اس آیت میں ” افنضرب “ ہے، اس کا معنی ہے : کیا ہم تم کو چھوڑ دیں اور اس میں ” ذکر “ کا لفظ ہے، اس سے مراد ہے : وعظ اور نصیحت اور قرآن اور اس میں ” مسرفین “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : حد سے تجاوز کرنے والے۔

اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کیا ہم تمہارے سامنے نیکی کا حکم نہ دیں اور بُرائی سے منع نہ کریں، یا تمہارے کفر پر آخرت کے عذاب کا ذکر نہ کریں یا تمہارے سامنے پر آن مجید کی آیات نازل نہ کریں۔ محض اس لیے کہ تم حد سے گزرنے والے ہو، یعنی تمہارے حد سے گزرنے کی وجہ سے ہم قرآن مجید کے نزول کو اور تمہیں نصیحت کرنے کے سلسلے کو موقوف نہیں کریں گے۔

قتادہ نے کہا : اس امت کے پہلے لوگوں کے کہنے کی وجہ سے اگر اس قرآن کو اٹھا لیا جاتا تو یہ امت ہلاک ہوجاتی، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے قرآن مجید کو بار بار نازل فرماتا رہا اور لگاتار تئیس سال تک انہیں اسلام کی طرف بلاتا رہا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زجروتوبیخ کرنے میں مبالغہ کیا ہے، یعنی کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ تمہارے نصیحت سے بیزار ہونے کی وجہ سے ہم تمہیں نصیحت کرنا بند کردیں گے، ہرگز نہیں، بلکہ ہم تمہیں دین کی طرف بلاتے رہیں گے اور تم پر اعمال صالحہ کو لازم کرتے رہیں گے اور تم کو یہ بتاتے رہیں گے کہ اگر تم نے نیک کام نہیں کیے یا برے کاموں کا ارتکاب کیا تو تمہیں آخرت میں عذاب کا سامنا ہوگا۔

القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 5