اِنَّا جَعَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَۚ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّا جَعَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَۚ ۞
ترجمہ:
بیشک ہم نے اس کتاب کو عربی قرآن بنادیا تاکہ تم سمجھ سکو
کتاب کو قرآن عربی فرمانے کی وجوہ
الزخرف : ٣ میں فرمایا : ” بیشک ہم نے اس کتاب کو عربی قرآن بنادیا تاکہ تم سمجھ سکو “۔
یہ قسم کا جواب ہے اور اس کی تفسیر میں تین قول ہیں : (١) سدی نے کہا : ہم نے اس کو عربی میں نازل کیا ہے (٢) مجاہد نے کہا : ہم نے عربی میں کہا ہے (٣) سفیان ثوری نے کہا : ہم نے اس کو عربی میں بیان کیا ہے، یہ تینوں تفسیریں متقارب ہیں۔
عربی کا معنی یہ ہے کہ یہ عربی زبان میں ہے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں : (١) مقاتل نے کہا : اس کو عربی زبان میں اس لیے نازل کیا کہ آسمان والوں کی زبان عربی ہے (٢) سفیان ثوری نے کہا : ہر نبی پر اس زبان میں کتاب نازل کی گئی جو اس کی قوم کی زبان ہے۔
اس کے بعد فرمایا : ” تاکہ تم سمجھ سکو “ اس کی تفسیر میں بھی دو قول ہیں :
(١) ابن عیسیٰ نے کہا : اگر یہ آیت خصوصیت سے اہل عرب کے متعلق ہے تو اس کا معنی ہے : تاکہ تم سمجھ سکو۔
(٢) ابن زید نے کہا : اگر یہ عرب اور عجم دونوں سے خطاب ہے تو اس کا معنی ہے : تاکہ تم غور و فکر کرسکو۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢١٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
ان آیتوں پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ” حٰم ٓ والکتب المبین “ قسم ہے اور ” انا جعلنہ قرآن اعربیا “ مقسم بہ ہے اور قسم اور مقسم بہ میں تغایر ہوتا ہے اور یہاں دونوں سے مراد ایک ہے کیونکہ قسم میں کتاب کا ذکر ہے اور وہ قرآن ہے اور مقسم بہ میں ” قرآن عربیا “ کا ذکر ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قسم میں قرآن مجید کی ذات مراد ہے اور مقسم بہ میں اس کا وصف عربی ہونا مراد ہے، لہٰذا دونوں متغائر ہوگئے۔
القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 3