اِنَّمَا السَّبِيۡلُ عَلَى الَّذِيۡنَ يَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ يَبۡغُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَقِّؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 42
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّمَا السَّبِيۡلُ عَلَى الَّذِيۡنَ يَظۡلِمُوۡنَ النَّاسَ وَ يَبۡغُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَقِّؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
مواخذہ کرنے کا جواز ان لوگوں کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور روئے زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے
ظلم اور ناحق سرکشی کرنے والوں کے مصادیق
الشوریٰ : ٤٢ میں فرمایا : ” مواخذہ کرنے کا جواز ان لوگوں کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور روئے زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے “
یعنی جو لوگ اسلحہ کے زور پر لوگوں کا مال چھین لیتے ہیں اور جبراً بھتہ لیتے ہیں، حکومت پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں سے مواخذہ کرے اور ان لوگوں کو ڈاکہ ڈالنے اور جبراً بھتہ لینے سے روکے۔
مقاتل نے کہا : ظلم اور بغاوت سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ علانیہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں، کھلے عام شراب پیتے ہیں اور جوا کھیلتے ہیں اور دیگر گناہ کرتے ہیں، حکومت پر لازم ہے کہ ان کو لگام دے اور ان کی ناک میں نکیل ڈالے۔
مقاتل نے کہا : اس سے مراد مشرکین ہیں جو ہجرت سے پہلے مکہ میں مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے اور ناحق سرکشی کرتے تھے۔
قتادہ نے کہا : یہ آیت ہر قسم کے ظلم کرنے والوں کے لیے عام ہے۔
انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کی تحقیق
علامہ قرطبی مالکی فرماتے ہیں : علامہ ابوبکر بن العربی نے کہا ہے کہ یہ آیت : ” مواخذہ کرنے کا جواز ان لوگوں کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں “ (الشوریٰ : ٤٢) سورة توبہ : ٩١ کے مقابلہ میں ہے جس میں فرمایا ہے :
ماعلی المحسنین من سبیل۔
نیکی کرنے والوں کے خلاف مواخذہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے نیکی کرنے والوں کے خلاف مواخذہ کی نفی فرمائی ہے اسی طرح ظلم کرنیوالوں کے خلاف مواخذہ کو ثابت فرمایا ہے۔
اس میں اختلاف ہے کہ اگر سربراہ مملکت کسی ملک کے عوام پر ان کی آمدنی پر ٹیکس لگا دے اور کوئی شخص اس پر قادر ہو کہ وہ ٹیکس نہ ادا کرے تو آیا اس کے لیے ٹیکس ادا نہ کرنا جائز ہے یا نہیں، ہمارے علماء میں سے علامہ سحنون مالکی نے کہا : اگر وہ ٹیکس ادا نہ کرنے پر قادر ہے تو اس کے لیے ٹیکس ادا نہ کرنا جائز نہیں ہے اور علامہ ابوجعفر احمد بن نصر مالکی نے کہا : اس کے لیے ٹیکس ادا نہ کرنا جائز ہے۔ (الجامع الاحکام القرآنجز ١٦ ص ٤٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں : حکومت ٹیکس اس لیے لگاتی ہے کہ اس کو اسلحہ خریدنے کے لیے، سڑکیں اور پل بنانے کے لیے سرمایہ چاہیے، اسی طرح فوج کی تنخواہیں دینے کے لیے، سرکاری ہسپتالوں، سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سٹاف اور اساتذہ کو تنخواہیں دینے کے لیے عدالتوں اور ججوں کے اخراجات اور تنخواہوں کے لیے سرمایہ چاہیے۔ اسی طرح اور دیگر ملکی اور قومی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ چاہیے اور یہ حکومت کی مجبوری اور اس کی جائز ضرورت ہے، اس ضرورت کو اموال ظاہرہ (تجارت کی خام اشیاء اور مصنوعات وغیرہ) پر زکوٰۃ اور عشر کی آمدنی سے پورا کیا جاسکتا ہے، لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اموال ظاہرہ سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جاتی بلکہ اموال باطنہ یعنی بینک اکائونٹ سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ ملکی اور قومی ضروریات کے علاوہ مرکزی اور صوبائی وزراء اور ان کے بےتحاشا سٹاف کے اخراجات، ان کے سرکاری غیر ملکی دوروں اور ان کے تعیش اور اللوں تللوں کے اخراجات بھی ٹیکس کی آمدنی سے پورے کیے جاتے ہیں، ان کی تنخواہیں اور ان کی مراعات کے اخراجات لاکھوں سے متجاوز ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں جس شخص کی آمدنی چھ ہزار روپے ماہانہ ہو اور اس پر پورے کنبہ کی کفالت کا بوجھ ہو اس کو بھی ان وزیروں اور مشیروں کی شاہ خرچیوں کے لیے ٹیکس دینا پڑتا ہے، جب کہ دوائیوں سے لے کر کھانے پینے کی اور دیگر ضروریات کی چیزوں پر اس کے علاوہ ہرا تہرا ٹیکس لگا ہوا ہے اور یوں عوام اپنی رگوں سے خون کشید کرکے سرکاری عملہ کی عیاشیوں کے لیے رقم فراہم کرتے ہیں، ایک وقت تھا کہ ١٩٦٨۔ ١٩٥٨ تک مشرقی اور مغربی پاکستان کے کل ملا کر نومرکزی وزراء تھے، اس وقت مشیر وغیرہ نہیں ہوتے تھے، اب مغربی پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ہے اور ہر صوبہ میں ساٹھ سے زیادہ صوبائی وزراء ہیں، مشیروں کی تعداد الگ ہے، پھر ان کا سٹاف ہے اور پاکستان کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ سرکاری عملہ کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کی نذر ہوجاتا ہے۔
ہونا یہ چاہیے کہ ملک کی جائز اور واقعی ضروریات کو اموال ظاہرہ سے زکوٰۃ وصول کرکے پورا کیا جائے، پھر بھی اگر ضرورت پڑے تو سرمایہ داروں سے مناسب حد تک ٹیکس لگا کر اس خرچ کو پورا کیا جائے اور تنخواہ دار طبقہ سے انکم ٹیکس بالکل صول نہ کیا جائے اور اگر ان سے بھی ٹیکس لینا ناگزیر ہو تو ان سے ٹیکس لیا جائے جن کی ماہانہ آمدنی چالیس ہزار روپے سے زائد ہو اور جن ملازمین کی ماہانہ تنخواہ چھ سات ہزار روپے ہو ان سے بالکل ٹیکس نہ لیا جائے۔ اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء، دوائوں اور روز مرہ کی ضرورت کی چیزوں پر بالکل ٹیکس نہ لگایا جائے، لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے جب وزیروں اور مشیروں کی بےتحاشا بھرتی نہ کی جائے، ان کے غیر ضروری اسٹاف اور شاہ خرچیوں کو ختم کیا جائے، صدر اور وزیر اعظم کے سرکاری دوروں پر ان کے ساتھ جو بےتحاشا ان کے ٹائوٹ جاتے ہیں اور ان کو شاپنگ کے لیے جو بےدریغ زر مبادلہ دیا جاتا ہے اس سلسلہ کو ختم کیا جائے۔ ایک غریب ملک جو سود کے قرضوں سے چل رہا ہے، جس کے عوام کی فی کس آمدنی چار پانچ ہزار ماہانہ ہے، اس کو یہ اللے تللے کب زیب دیتے ہیں۔
اپنے مال کے حق اور عزت کے حق کو معاف کرنے کے سلسلہ میں علماء کے نظریات
اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے کہ کسی مسلمان کا مال کسی دوسرے مسلمان پر نکلتا ہو یا اس کی عزت کسی نے مجروع کی ہو تو آیا وہ اپنے مال یا اپنی عزت کا حق معاف کرسکتا ہے یا نہیں، امام مالک کے نزدیک وہ اپنے مال کا حق معاف کرسکتا ہے، اپنی عزت کا حق معاف نہیں کرسکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
انما السبیل علی الذین یظلمون الناس۔ (الشوریٰ :42)
مواخذہ کرنے کا جواز ان لوگوں کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔
ما علی المحسنین من سبیل۔ (التوبہ :91)
نیکی کرنے والوں کے خلاف مواخذہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
پس اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان پر اپنے مالی حق کو معاف کردیتا ہے تو یہ اس کی نیکی ہے اور اس سے مواخذہ کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی اس کی عزت کو مجروح کرتا ہے تو یہ اس کا ظلم ہے اور ظلم کرنے والے پر گرفت کرنا لازم ہے تاکہ وہ ظلم پر دلیر نہ ہو۔
سعید بن مسیب نے کہا : نہ اپنا مال چھوڑے اور نہ اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا ترک کرے، کیونکہ کسی مسلمان کے مال کو غصب کرنا اور اس کو بےعزت کرنا حرام ہے اور جب اس سے مواخذہ نہیں کیا جائے گا تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کو حلال کرنا لازما آئے گا اور یہ اللہ کے حکم کو تبدیل کرنا ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔
ابن سیرین نے کہا : وہ اپنے مال کے حق کو بھی معاف کرسکتا ہے اور عزت کے حق کو بھی معاف کرسکتا ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ انسان اپنے قصاص کے حق کو معاف کرسکتا ہے۔
امام مالک نے مال کے حق کو معاف کرنے پر اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے :
عبادہ بن الولید بن عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے والد علم کی طلب میں انصار کے قبیلہ میں گئے، ہماری سب سے پہلے حضرت ابوالیسر سے ملاقات ہوئی، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی تھے اور ان کے ساتھ ایک غلام تھا جس کے پاس صحائف کا ایک گٹھا تھا، حضرت ابوالیسر اور ان کے غلام دونوں نے ایک قسم کی دھاری دار چادر اور معافری کپڑا پہنا ہوا تھا۔ میں نے ان سے کہا : اے چچا ! میں آپ کے چہرے پر غم وغصہ کے آثار دیکھ رہا ہوں، انہوں نے کہا : بنو حرام کے فلاں بن فلاں شخص پر میرا مال تھا، میں اس کے گھر گیا، سلام کیا، پھر میں نے پوچھا : وہ شخص کہاں ہے ؟ گھروالوں نے کہا : وہ یہاں نہیں ہے، پھر اچانک اس کا نوجوان بیٹا گھر سے نکلا، میں نے اس سے پوچھا : تیرا باپ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : اس نے آپ کی آواز سنی تو وہ میری ماں کے چھپرکھٹ (پردوں والا پلنگ) میں چھپ گیا، میں نے کہا : اب نکل آئو، مجھے پتا چل گیا ہے تم کہاں ہو ؟ وہ باہر نکل آیا، میں نے پوچھا : تم مجھ سے کیوں چھپے تھے ؟ اس نے کہا : میں قسم کھا کر بیان کرتا ہوں اور میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اللہ کی قسم ! میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ میں آپ سے بات کروں اور جھوٹ بولوں اور میں آپ سے کوئی وعدہ کروں اور اس کے خلاف کروں حالانکہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں اور اللہ کی قسم ! میں ایک غریب آدمی ہوں، میں نے کہا : اللہ کی قسم ! اس نے کہا : اللہ کی قسم ! پھر میں نے اس کے قرض کی دستاویز منگا کر اس کو اپنے ہاتھ سے مٹادیا اور کہا : اگر تم ادا کرسکو تو ادا کردینا ورنہ تم بری الذمہ ہو، پھر حضرت ابوالیسر نے اپنی دونوں آنکھوں پر انگلیاں رکھ کر کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے کانوں نے سنا اور دل کی جگہ ہاتھ رکھ کر کہا : میرے اس دل نے یاد رکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی مقروض کو مہلت دی یا اس کا قرض معاف کردیا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سائے میں رکھے گا۔ الحدیث (صحیح مسلم : الزہد، رقم الحدیث : ٧٤، رقم الحدیث بلاتکرار : ٣٠٠٦، الرقم المسلسل : ٧٣٧٧)
یہ تو اس مقروض کے ساتھ نیکی ہے جو زندہ تھا اور جو قرض کی حالت میں مرگیا وہ اس نیکی کے زیادہ لائق ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٤١۔ ٤٠، دارلفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
ہمارے نزدیک ان اقوال میں صحیح قول ابن سیرین کا ہے کہ انسان اپنے مال کا حق بھی معاف کرسکتا اور جان اور عزت کا حق بھی معاف کرسکتا ہے، مال کا حق کو معاف کرنے کی دلیل یہ آیت ہے : نیکی کرنے والوں کے خلاف مواخذہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے (لتوبہ : ٩١) اور حضرت ابوالیسر کی حدیث مذکو الصدر ہے اور جان اور عزت کے حق کو معاف کرنے کی دلیل یہ آیت ہے : پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے (الشوریٰ : ٤٠) اور حق قصاص کو معاف کرنے کی آیات ہیں اور بکثرت احادیث میں ہے ” واعف عمن ظلمک “ جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٧٩٧٠)
القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 42