أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِّـلَّـهِ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ‌ؕ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ‌ ؕ يَهَبُ لِمَنۡ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنۡ يَّشَآءُ الذُّكُوۡرَ ۞

ترجمہ:

تمام آسمانوں اور زمینوں میں اللہ ہی حکومت ہے، وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جس کو چاہے بیٹے عطا فرمائے

الشوریٰ : ٥٠۔ ٩٥ میں فرمایا : تمام آسمانوں اور زمینوں میں اللہ ہی حکومت ہے، وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، وہ جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جس کو چاہے بیٹے عطا فرمائے یا جس کو چاہے بیٹے اور بیٹیاں عطا کردے اور جس کو چاہے بےاولاد کردے، وہ بےحد علم والا، بہت قدرت والا ہے “

مذکر اور مؤنث کی پیدائش کی علامات

ان آیتوں میں یہ بتایا ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں میں اللہ ہی کی حکومت ہے اور ہر چیز اس کے زبر قدرت اور زیر تصرف ہے اور اس کی قدرت کے آثار میں سے یہ ہے کہ وہ جس کو چاہے اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے اور جس کو چاہے محروم رکھتا ہے، اگر شوہر اور بیوی دونوں بانجھ ہوں اور وہ یہ چاہیں کہ ان کے اپنے نطفہ اور نسوانی انڈے سے اولاد ہو تو کسی طریقہ سے بھی ان کی اولاد نہیں ہوسکتی، ٹیسٹ ٹیوب کے ذریع کلوننگ کے ذریعہ، اس لیے اولاد کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

آیتوں میں انسان کے ہاں اولاد کے مذکر یا مؤنث ہونے کا ذکر ہے، اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں۔

حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی کے سوال کے جواب میں فرمایا : مرد کا پانی سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی زرد ہوتا ہے، جب یہ دونوں پانی جمع ہوجائیں تو اگر مرد کا پانی عورت کے پانی پر غلبہ پالے تو اللہ کے حکم سے مذکر پیدا ہوتا ہے اور عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ پالے تو اللہ کے حکم سے مؤنث پیدا ہوتی ہے، پھر وہ یہودی آپ کی تصدیق کرکے چلا گیا۔۔ (صحیح مسلم، کتاب الحیض رقم الحدیث : ٣١٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٩٠٧٣)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا : جب عورت کو احتلام ہوجائے اور وہ پانی کو دیکھ لے تو کیا وہ بھی غسل کرے گی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! حضرت عائشہ نے اس عورت سے کہا : تمہارے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو رہنے دو ، بچو جو کسی کے مشابہ ہوتا ہے تو اسی وجہ سے ہوتا ہے، جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب ہو تو بچہ اپنے ماموئوں کے مشابہ ہوتا ہے اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب ہو تو بچہ اپنے چچائوں کے مشابہ ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣١٣، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٢٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٩٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٠٠، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٢٦٢ )

انبیاء (علیہم السلام) کو اولاد عطا فرمانے کی تفصیل

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں کہ نقاش نے کہا ہے کہ :

ہر چند کہ اس آیت کا حکم عام ہے لیکن یہ آیت بالخصوص انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق نازل ہوئی ہے، حضرت لوط (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے صرف بیٹیاں دیں، ان کو بیٹے نہیں دیئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو صرف بیٹے دیئے، ان کو بیٹیاں نہیں دیں اور حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو بیٹے اور بیٹیاں دیں، اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹے اور بیٹیاں دیں، آپ کو تین بیٹے دیئے : حضرت قاسم، حضرت عبداللہ ان کو الطیب اور الطاہر بھی کہا جاتا ہے، یہ دونوں صاحبزادے حضرت خدیجہ سے ہوئے اور حضرت ابراہیم (رض) یہ حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے ہوئے اور چار بیٹیاں دیں : حضرت زینب، حضرت ام کلثوم، حضرت رقیہ اور حضرت فاطمہ (رض) یہ سب حضرت خدیجہ (رض) کے بطن سے پیدا ہوئیں اور بعض انبیاء (علیہم السلام) سے اولاد نہیں ہوئی، جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام۔

خلاصہ یہ ہے کہ اولاد ہونے یا نہ ہونے یا مذکر یا مؤنث ہونے میں ہر قسم کے لیے کسی نہ کسی نبی کی زندگی میں نمونہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ١٢ ص ٤٦، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

بیٹی کے ذکر کو بیٹے کے ذکر پر مقدم کرنے کی وجوہ

الشوریٰ : ٤٩ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” وہ جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جس کو چاہے بیٹے عطا فرمائے “ اس آیت میں بیٹیاں دینے کو بیٹے دینے پر مقدم فرمایا ہے، امام رازی نے اس تقدیم کی حسب ذیل وجوہ بیان فرمائی ہیں۔

(١) بیٹے کا پیدا ہونا خوشی کا باعث ہے اور بیٹی کا پیدا ہونا غم کا باعث ہے، اگر پہلے بیٹے کا ذکر فرماتا اور پھر بیٹی کا تو انسان کا ذہن خوشی سے غم کی طرف منقل ہوتا اور جب پہلے بیٹی دینے کا ذکر فرمایا اور پھر بیٹا دینے کا تو انسان کا ذہن غم سے خوشی کی طرف منتقل ہوگا اور یہ کریم کی عطا کے زیادہ لائق ہے۔

(٢) جب اللہ تعالیٰ پہلے بیٹی دے گا تو بندہ اس پر صبر اور شکر کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور جب اس کے بعد اللہ تعالیٰ بیٹا دے گا تو بندہ جان لے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے، پھر اس کا شکر اور اس کی اطاعت زیادہ کرے گا۔

(٣) عورت کمزور اور ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہے، اس لیے عورت کے ذکر کے بعد مرد کے ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ جب عجز اور حاجت زیادہ ہو تو اللہ کی عنایت اور اس کا فضل زیادہ ہوتا ہے۔

(٤) عموماً باپ کے نزدیک بیٹی کا وجود حقیر اور ناگوار ہوتا ہے، زمانہ جاہلیت میں عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کے ذکر کو بیٹیوں کے ذکر پر مقدم کرکے یہ ظاہر فرمایا کہ لوگوں کے نزدیک بیٹی حقیر اور ناگوار ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیٹی مرغوب اور پسندیدہ ہے، اس لیے اس نے بیٹی کے ذکر کو بیٹے کے ذکر پر مقدم فرمایا۔

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 49