وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الۡبَغۡىُ هُمۡ يَنۡتَصِرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 39
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الۡبَغۡىُ هُمۡ يَنۡتَصِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ان لوگوں کے خلاف جب کوئی بغاوت کرے تو وہ صرف بدلہ لیتے ہیں
بدلہ لینے اور بدلہ نہ لینے کی آیتوں میں بظاہر تعارض کا جواب
الشوریٰ : ٣٩ میں فرمایا : ” اور ان لوگوں کے خلاف جب کوئی بغاوت کرے تو وہ صرف بدلہ لیتے ہیں “
ہجرت سے پہلے مکہ میں جب مسلمان کفار کے مظالم کا شکار ہورہے تھے تو ان کو کافروں سے بدلہ لینے کی اجازت نہ تھی اور ہجرت کے بعد مسلمانوں کو کفار سے بدلہ لینے کی اجازت دی گئی، لہٰذا جنگ بدر، جنگ احد اور جنگ خندق میں جب مشرکین نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو مسلمانوں نے جوابی کاروائی کی اور کفار کے دانت کھٹے کردیئے، ان کو قتل کیا گیا اور ان کو گرفتار کیا گیا۔
اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں ظلم اور بغاوت کا بدلہ لینے کی تعریف اور تحسین کی گئی ہے، حالانکہ اس سے پہلی آیت میں یہ فرمایا تھا : ” اور وہ غضب کے وقت معاف کردیتے ہیں “ (الشوریٰ : ٣٧) اسی طرح اور دیگر آیات میں بھی ظلم اور زیادتی پر معاف کردینے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور وہ درج ذیل آیات ہیں :
وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصبرین (النحل :126)
اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی سزا دو جتنی تم کو سزا دی گئی ہے اور اگر تم صبر کرلو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت بہتر ہے
واذا مروا باللغو مروا کراما (الفرقان :72)
اور جب وہ کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت سے گزرجاتے ہیں۔
علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
(١) ابن جریج نے کہا : مشرکین نے جو مسلمانوں پر ظلم کیا تھا اس کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کو ان کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت مل گئی۔
(٢) ابراہیم نخعی نے کہا : کہ باغیوں نے جو مسلمان حکومت کے خلاف کاروائی کی اس کی ان کو سزا دینی واجب ہے، ورنہ اگر ان کو سزا دی اور ان سے بدلہ نہ لیا گیا تو اس سے یہ تاثر قائم ہوگا کہ مسلمان حکومت کمزور ہے اور وہ اپنے خلاف سازشوں اور فتنوں کی سرکوبی پر قادر نہیں ہے اور اس سے دیگر حکومت کے مخالفوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ جرائم پر دلیر ہوں گے۔
(٣) جب مسلمانوں پر کوئی ظلم کرے تو وہ اس سے بدلہ لیں حتیٰ کہ ظالموں کی قوت کمزور اور مضمحل ہوجائے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢٠٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
خلاصہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے خلاف اجتماعی طور پر کوئی بغاوت کرے یا ظلم کرے تو اس کو کیفر کردار تک پہنچانا واجب ہے اور اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان پر انفرادی طور پر کوئی ظلم یا زیادتی کرے اور بعد میں اس پر نادم ہو اور اپنی زیادتی پر معاف کا خواستگار ہو تو اس کو معاف کردیا اور اس سے بدلہ نہ لینا افضل ہے، قرآن مجید میں ہے :
وان تعفواقرب للتقوی۔ (البقرہ :237)
اور تمہار معاف کرنا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص فمن تصدق بہ فھوکفارۃ لہ۔ (المائدہ :45)
جان کا لدبہ جان ہے اور آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے اور ناک کا بدلہ ناک ہے اور کان کا بدلہ کان ہے اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور مخصوص زخموں کا بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف کردے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔
ولا یاتل اولو الفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربی والمسکین والمھجرین فی سبیل اللہ ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم (النور :22)
اور تم میں سے جو لوگ صاحب حیثیت اور خوش حال ہیں، انہیں اپنے رشتہ داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں پر خرچ نہ کرنے کی قسم نہیں کھانی چاہیے، ان کو معاف کرنا اور درگزر کرنا چاہیے، کیا تم اس کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے اور اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے
القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 39