أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنَّهٗ فِىۡۤ اُمِّ الۡكِتٰبِ لَدَيۡنَا لَعَلِىٌّ حَكِيۡمٌؕ ۞

ترجمہ:

بیشک یہ لوح محفوظ میں ہمارے نزدیک بہت بلند مرتبہ، بہت حکمت والی ہے

لوح محفوظ میں قرآن مجید اور مخلوق کے اعمال کا ثابت ہونا

الزخرف : ٤ میں فرمایا : ” بیشک یہ لوح محفوظ میں ہمارے نزدیک بہت بلند مرتبہ، بہت حکمت والی ہے “

اس آیت کی دو تفسیریں ہیں : ایک تفسیر یہ ہے کہ یہ قرآن لوح محفوظ میں ہے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ مخلوق کے اعمال لوح محفوظ میں ہیں۔ اگر یہ مراد ہو کہ یہ قرآن لوح محفوظ میں ہے تو اس کے بلند مرتبہ ہونے کا معنی یہ ہے : یہ بہت محکم اور منضبط ہے، اس میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے اور حکیم کا معنی ہے : اس میں حکمت آمیز کلام ہے۔ اور اس کے لوح محفوظ میں ہونے کی تائید میں یہ آیتیں ہیں :

انہ لقرآن کریم فی کتب مکنون (الواقعہ :77-78)

بے شک یہ قرآن بہت عزت والا ہے یہ محفوظ کتاب میں درج ہے

بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ (البروج :21-22)

بلکہ یہ عظمت والا قرآن ہے لوح محفوظ میں مندرج ہے۔

اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ مخلوق کے تمام اعمال خواہ وہ ایمان اور کفر ہوں یا اطاعت اور معصیت ہوں، وہ سب لوح محفوظ میں ثابت ہیں اور اب بلند مرتبہ کا یہ معنی ہے کہ وہ اعمال ایسی جگہ لکھے ہوئے ہیں جو اس سے بلند ہے کہ کوئی شخص اس میں ردوبدل کرسکے اور حکیم کا معنی ہے : وہ محکم ہے، اس میں کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوسکتا۔ لوح محفوظ میں مخلوق کے اعمال لکھے جانے کی تفصیل اس حدیث میں ہے :

عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ میں آیا تو میری ملاقات عطاء بن ابی رباح سے ہوئی، میں نے ان سے کہا : اے ابو محمد ! اہل بصرہ تقدیر کے متعلق بحث کرتے ہیں، انہوں نے پوچھا : اے بیٹے ! تم قرآن مجید پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! انہوں نے کہا : سورة الزخرف پڑھو، جب میں نے یہ آیت پڑھی :” وانہ فی ام الکتب لدینا لعلی حکیم “ (الزخرف :4) تو انہوں نے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ ام الکتب کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے، انہوں نے کہا : یہ وہ کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پہلے لکھا اور اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ فرعون اہل دوزخ سے ہے اور اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ” تبت یدا ابی لھب وتب “ عطاء کہتے ہیں کہ پھر حضرت عبادہ بن الصامت (رض) کے بیٹے ولید سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے والد نے موت کے وقت کیا وصیت کی تھی ؟ اس نے کہا : انہوں نے مجھے بلا کر فرمایا : اے میرے بیٹے ! اللہ سے ڈرو اور تم اس وقت تک اللہ سے نہیں ڈر سکو گے حتیٰ کہ تم اللہ پر ایمان لائو اور ہر خیر اور شر کے اللہ سے وابستہ ہونے پر ایمان لائو، اگر تم اس کے خلاف عقیدہ پر مرگئے تو دوزخ میں داخل ہوگے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : بیشک سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا : لکھو، اس نے کہا : کیا لکھوں ؟ فرمایا : تقدیر کو لکھو اور جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ابد تک ہونے والا ہے اس کو لکھو۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٢٥٥، مسند احمد ج ٥ ص ٣١٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٠٠)

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ لوح محفوظ تو ایک قسم کی یادداشت اور نوٹ بک ہے، جس میں آدمی ضروری چیزیں لکھ لیتا ہے اور جب کوئی بات بھول جائے تو پھر اس میں دیکھ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اور اس کے لیے کسی چیز کو بھولنا محال ہے، پھر اس نے لوح محفوظ میں تمام چیزوں کو کیوں لکھا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتے لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کو پتا چل جاتا ہے کہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے، پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ لوح محفوظ میں لکھے ہوئے کے مطابق حوادث واقع ہو رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے متعلق ان کا ایمان اور تازہ ہوجاتا ہے، نیز انبیاء (علیہم السلام) اور اکابر اولیاء کرام بھی لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کو غیب کا علم ہوجاتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں یہ معجزہ ہے اور اولیا اللہ کے حق میں یہ کرامت ہے۔

اور چونکہ اس آیت کا ایک محمل یہ ہے کہ یہ قرآن کریم ہے اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن مجید بھی لوح محفوظ میں ثابت ہے، پھر اس کو آسمان دنیا کی طرف نقل کیا گیا، پھر اس کو حسب ضرورت اور مصلحت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب پر نازل کیا گیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 4