وَتَرٰٮهُمۡ يُعۡرَضُوۡنَ عَلَيۡهَا خٰشِعِيۡنَ مِنَ الذُّلِّ يَنۡظُرُوۡنَ مِنۡ طَرۡفٍ خَفِىٍّ ؕ وَقَالَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ الۡخٰسِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ وَاَهۡلِيۡهِمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ فِىۡ عَذَابٍ مُّقِيۡمٍ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 45
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَتَرٰٮهُمۡ يُعۡرَضُوۡنَ عَلَيۡهَا خٰشِعِيۡنَ مِنَ الذُّلِّ يَنۡظُرُوۡنَ مِنۡ طَرۡفٍ خَفِىٍّ ؕ وَقَالَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ الۡخٰسِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ وَاَهۡلِيۡهِمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ فِىۡ عَذَابٍ مُّقِيۡمٍ ۞
ترجمہ:
اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ جب ان کو دوزخ پر اس حال میں پیش کیا جائے گا کہ وہ ذلت سے سرجھکائے ہوئے ہوں گے، کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور ایمان والے کہہ رہے ہوں گے کہ بیشک نقصان زدہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو اور ھگر والوں کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیا، سنو ! بیشک ظلم کرنے والے دائمی عذاب میں ہیں
الشوریٰ : ٤٥ میں فرمایا :” اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ جب ان کو دوزخ پر اس حال میں پیش کیا جائے گا کہ وہ ذلت سے سرجھکائے ہوئے ہوں گے، کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے “۔
اس سوال کا جواب کہ قرآن مجید کی ایک آیت میں قیامت کے دن کفار کے بینا ہونے کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں نابینا ہونے کا ذکر ہے
یعنی وہ پوری طرح آنکھیں کھول کر نہیں دیکھ رہے ہوں گے جس طرح کوئی شخص اس چیز کو دیکھتا ہے جو اس کو بہت پسند اور مرغوب ہو اور جس چیز سے انسان بہت خوف زدہ اور دہشت زدہ ہو اس کو تھوڑی سی پلکیں اٹھا کر دیکھتا ہے، خصوصاً اس چیز کو جس کا منظر بہت خوفناک اور بہت دہشت ناک ہو۔
اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ایک جگہ پر ہے :
ونحشرھم یوم القیمۃ علی وجوھہم عمیا وبکما و ضما۔ (بنی اسرائیل :97)
اور اللہ قیامت کے دن ان کو مونہوں کے بل اٹھائے گا، اس وقت یہ اندھے، بہرے اور گونگے ہوں گے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ کفار قیامت کے دن جب اٹھیں گے تو وہ اندھے ہوں گے اور الشوریٰ : ٤٥ سے معلوم ہوا کہ اس وقت وہ بینا ہوں گے اور کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے ابتداء میں وہ بینا ہوں اور بعد میں ان کی بینائی سلب کرکے ان کو اندھا کردیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کفار کا ایک گروہ بینا ہو اور دوسرا گروہ اندھا ہو۔
نیز اس آیت کے آخر میں فرمایا : ” سنو ! بیشک ظلم کرنے والے دائمی عذاب میں ہیں۔ “
معتزلہ یہ کہتے ہیں : جس طرح کفار ظالم ہیں اسی طرح فساق بھی ظالم ہیں، پس اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان گناہ کبیرہ کرکے بغیر توبہ کے مرگیا اس کو دائمی عذاب ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جب ظالم کا لفظ مطلقاً آئے تو اس سے کافر مراد ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے :
والکفرون ھم الظلمون (البقرہ :254)
ظلم کرنیوالے کافر ہی ہیں
کیونکہ جب مسند اور مسندالیہ دونوں معرفہ ہوں اور ان کے درمیان ضمیر فصل ہو تو پھر مسند کا مسندالیہ میں حضر ہوتا ہے۔ اور اس کی تاکید اس کے بعد والی آیت سے ہوتی ہے :
القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 45