أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعۡدَ ظُلۡمِهٖ فَاُولٰٓئِكَ مَا عَلَيۡهِمۡ مِّنۡ سَبِيۡلٍؕ ۞

ترجمہ:

اور جس نے اپنے اوپر ظلم کیے جانے کا بدلہ لے لیا تو اب اس سے مواخذہ کرنے کا کوئی جواز نہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور جس نے اپنے اوپر ظلم کیے جانے کا بدلہ لے لیا تو اب اس سے مواخذہ کرنے کا کوئی جواز نہیں مواخذہ کرنے کا جواز ان لوگوں کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور روئے زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بیشک یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے (الشوریٰ :41-43)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

مسلمان جب کافر سے بدلہ لے لے تو اس بدلہ لینے پر اس مسلمان کو ملامت کرنے کا کوئی جواز نہیں بلکہ اس کافر سے بدلہ لینے کی وجہ سے اس مسلمان کی تعریف اور تحسین کی جائے گی اور اگر مسلمان کسی ظالم مسلمان سے بدلہ لے پھر بھی اس کو ملامت نہیں کی جائے گی، پس کافر سے بدلہ لینا واجب ہے اور مسلمان سے بدلہ لینا مباح ہے اور مسلمان کو معاف کردینا مستحب ہے۔

عام مسلمان اپنے اوپر زیادتی کرنے والے کو خود سزا دے سکتا ہے یا نہیں ؟

اگر حکومت کے بجائے مسلمان خود اپنا بدلہ لے تو اس کی تین صورتیں ہیں :

(١) اگر مسلمان کے بدن میں کوئی زخم آیا ہو یا اس کا کوئی عضو ضائع ہوا ہو اور قاضی کے نزدیک یہ ثابت ہوگیا ہو کہ یہ شخص اپنا قصاص لینے کا مجاز ہے تاہم قاضی اس کو منع کرے گا کہ وہ از خود قصاص نہ لے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جرأت نہ کرے تاکہ کہیں خونریزی کا دروازہ نہ کھل جائے اور اگر احکام کے نزدیک اس کے قصاص لینے کا حق ثابت نہ ہو اور وہ قصاص لے لے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا قصاص لینا جرم نہیں ہوگا اور حکام اور قانون کے نزدیک یہ جرم ہوگا اور اس کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

(٢) اگر کسی کے جرم کی سزا حد ہو جیسے زنا کی حد یا چوری کی حد تو کسی عام آدمی کو یہ سزا دینے کا حق نہیں ہے، اگر حاکم کے نزدیک اس کا جرم ثابت نہیں ہوا اور عام آدمی نے اس کو سزا دی تو اس کو پکڑ کر سزا دی جائے گی کیونکہ عام آدمی کو اپنے ہاتھ میں قانون لینے کا حق نہیں ہے اور نہ عام آدمی کو حد جاری کرنے کا حق ہے اور اگر حاکم کی نزدیک اس کا جرم ثابت ہو اور کسی نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا ہو تو اب دوبارہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کیونکہ اب اسکا وہ محل قائم نہیں رہا جس پر حد جاری ہوسکتی ہے اور اگر اس کی حد کوڑے مارنا تھی تو پھر اس کو کوڑے مارے جائیں گے کیونکہ اس پر حدجاری ہونے کا محل باقی ہے۔

(٣) اگر کسی مسلمان کا دوسرا مسلمان پر مالی حق ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس سے بزور اپنا حق وصول کرلے، مثلاً اس کی طرف تنخواہ نکلتی ہو یا اس کا اس پر قرض ہو یا دین ہو، یہ اس صورت میں ہے کہ مقروض یا مدیون کو اس کے حق کا علم ہو اور اگر اس کو علم نہ ہو تو اگر صرف اس سے مطالبہ کرنے سے اس کا حق مل سکتا ہو تو پھر اس کو پکڑنا یا گرفتار کرنا جائز نہیں ہے اور اگر محض مطالبہ سے اس کا حق نہ مل سکتا ہو کیونکہ مقروض یا مدیون اس کے حق سے نکار کرتا ہو اور اس کے پاس اپنے حق پر گواہ نہ ہوں تو امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اب بھی اس کو پڑنا یا اس کو گرفتار کرنا جائز ہے اور امام حنیفہ کے نزدیک اس صورت میں اس کو گرفتار کرنا جائز نہیں ہے (مقروض سے مراد ہے جس نے اپنی ضرورت کے لیے نجی قرضہ لیا ہو اور مدیون سے مراد ہے جس نے مدت معین کے ادھار پر کوئی چیز خریدی ہو) ۔


تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 41