أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَمَنۡ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ۞

ترجمہ:

اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بیشک یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے

عزم، عزیمت اور رخصت کا معنی

الشوریٰ : ٤٣ میں فرمایا :” اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو بیشک یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے “

یعنی جس نے اذیت اور تکلیف برداشت کرنے پر صبر کیا اور اس کو معاف کردیا جس نے اس کے ا پر ظلم کیا تھا اور اس سے بدلہ نہیں لیا اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا تو اس کا یہ صبر کرنا عزائم امور سے ہے اور یہ ایسا کام ہے جس کا تندہ کو عزم کر چاہیے، کیونکہ یہ ایسا کام ہے جس کی دنیا میں تعریف اور تحسین کی جاتی ہے اور آخرت میں اس پر اجر عظیم ملتا ہے۔

اس آیت میں ” عزم “ کا لفظ ہے، علامہ حسین بن راغب اصفہانی اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

عزم کا معنی ہے : دل میں کسی کام کا پکا اور پختہ ارادہ کرلینا، خواہ کوئی اس کام سے کتنا ہی روکے میں یہ کام ضرور کروں گا، اس لیے جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے اصالۃُ فرض کیا ہے ان کو عزیمت کہتے ہیں اور کسی پیش آمدہ مشکل یا عارض کی بتناء پر اس فرض میں جو آسانی کردی جاتی ہے اس کو رخصت کہتے ہیں جیسے وطن میں ظہر، عصر اور عشاء میں چار رکعات فرض ہیں، یہ عزیمت ہے اور سفر کی مشقت کی وجہ سے ان اوقات میں دورکعاف فرض ہیں، اس کو رخصت کہتے ہیں۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٣٤، ملخصا وموضحا، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

علامہ مجد الدین المبارک بن محمد الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

عزم کا معنی ہے : وہ فرائض جن کو تمہارے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے عزم کیا ہے، ایک قول یہ ہے کہ جس کام کے کرنے پر تمہاری رائے پختہ اور مؤکد ہوگئی اور تم نے اس کام کو کرنے کا اللہ تعالیٰ سے عہد کرلیا۔ یہ حدیث میں ہے :

لیعزم المسئلۃ

اسے چاہیے کہ وہ پوری کوشش اور قطعیت سے سوال کرے۔ (صحیح البخاری : الدعوات : ٢١، صحیح مسلم الذکر : ٨، مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٣ )

حضرت ام سلمہ نے فرمایا : ” فعزم اللہ لی “ اللہ نے میرے لیے قوت اور صبر کو پیدا کردیا۔ (صحیح مسلم، الجنائز : ٥)

ایک اور حدیث میں ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) سے پوچھا : تم وتر کب پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : رات کے اول حصہ میں، پھر حضرت عمر (رض) سے پوچھا : تم وتر کب پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : رات کے آخری حصہ میں، آپ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : تم نے احتیاط پر عمل کیا اور حضرت عمر سے فرمایا : تم نے عزیمت پر عمل کیا۔ (سنن ابودائود، الوتر : ٧ سنن بیہقی ج ٣ ص ٣٦۔ ٣٥، مسند احمد ج ٣ ص ٣٠٩)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ تھی کہ حضرت ابوبکر کو خدشہ تھا کہ کہیں نیند کے غلبہ سے وتر فوت نہ ہوجائیں، اس لیے انہوں نے احتیاط سے کام لیا اور وتر کو پہلے ہی پڑھ لیا اور حضرت عمر کو اعتماد تھا کہ ان کی توتہجد کی نماز پڑھنے کی قوت ہے، اس لیے انہوں نے اصل کے مطابق وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھے اور بغیر احتیاط کے عزم میں کوئی خیر نہیں ہے کیونکہ جب تک قوت کے ساتھ احتیاط نہ ہو تو انسان ہلاک ہوجاتا ہے۔

اور اور حدیث میں ہے : ” الزکوۃ عزمۃ من عزمات اللہ “ یعنی زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے ایک حق ہے اور اس کے واجبات میں سے ایک واجب ہے۔ (سنن ابودائود الزکوٰۃ : ٥ سنن النسائی، الزکوٰۃ : ٧۔ ٤، مسند احمد ج ٥ ص ٤۔ ٢)

ایک اور حدیث میں ہے : اللہ رخصت پر عمل کرنے کو بھی اسی طرح پسند کرتا ہے جس طرح عزیمت پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔ (مسنداحمد ج ٢ ص ١٠٨، النہایہ ج ٣ ص ٢١٠۔ ٢٠٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

علامہ محمد بن مکرم ابن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :

عزم کا معنی ہے : کوشش کرنا اور عزم کا معنی ہے : تم نے اپنے دل میں جس کام کی گرہ باندھ لی اور عزم کا معنی ہے : تم نے کسی کام کرنے کی قسم کھالی، ” اولو العزم من الرسل “ کا معنی ہے : وہ رسول جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے کا عزم کیا، تفسیر میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اولوالعزم رسل ہیں اور عزم کا معنی صبر ہے، حدیث میں ہے : حضرت سعد نے کہا : ” فلما اصابنا البلاء اعتزمنا لذالک “ ہم پر جب مصیبت آئی تو ہم نے اس پر عزم کیا یعنی صبر کیا اور اس مصیبت کو برداشت کیا۔ ابن منظور نے عزم کے اور بھی بہت معانی لکھتے ہیں۔ (لسان العرب ج ١٠ ص ١٤٠، دارصادر، بیروت، ٢٠٠٣ ء)

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 43