أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحۡيًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآىٴِ حِجَابٍ اَوۡ يُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَيُوۡحِىَ بِاِذۡنِهٖ مَا يَشَآءُ‌ؕ اِنَّهٗ عَلِىٌّ حَكِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے ماسوا وحی کے یا پردے کی اوٹ سے، یا اللہ کسی فرشتہ کو بھیج دے پس وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہیے وہ وحی کرے، بیشک وہ بہت بلند، بےحد حکمت والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے ماسوا وحی کے یا پردے کی اوٹ سے، یا اللہ کسی فرشتہ کو بھیج دے پس وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہیے وہ وحی کرے، بیشک وہ بہت بلند، بےحد حکمت والا ہے اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح (قرآن) کی وحی کی ہے، اس سے پہلے آپ ازخود یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہے، لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنادیا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت دیتے ہیں اور بیشک آپ ضرور صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتے ہیں اللہ کے راستے کی طرف جو آسمانوں اور زمینوں کی ہر چیز کا مالک ہے، سنو ! اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹتے ہیں (الشوریٰ 51-53)

اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی تین صورتیں

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

نقاش نے بیان کیا کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ یہود نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا : کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ اللہ سے کلام کیوں نہیں کرتے اور اللہ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے کلام کیا اور اس کی طرف دیکھا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

اس آیت میں فرمایا : ” اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے ماسوا وحی کے “ یہاں وحی کی تفسیر میں دو قول ہیں :

(١) مجاہد نے کہا : اس کے قلب میں کسی معنی کو ڈال دیا جاتا ہے، پس وہ الہام ہے۔

(٢) زبیر بن محمد نے کہا : اس کو خواب میں کوئی چیز دکھائی جاتی ہے۔

اس کے بعد فرمایا : ” باپردہ کی اوٹ سے “۔ زبیر نے کہا : جیسے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوا۔

پھر فرمایا : ” یا اللہ کسی فرشتے کو بھیج دے پس وہ اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہے وہ وحی کرے “ زبیر نے کہا : اس سے مراد حضرت جبریل ہیں اور اس وحی کے ذریعہ انبیاء (علیہم السلام) سے خطاب ہوتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) بالمشافہ فرشتے کو دیکھتے ہیں اور اس کا کلام سنتے ہیں اور اسی طرح حضرت جبریل (علیہ السلام) ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لاتے تھے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت جبریل (علیہ السلام) ہر نبی پر نازل ہوئے لیکن ہمارے نبی شیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ اور حضرت زکریا صلوات اللہ علیہم اجمعین کے سوا ان کو کسی نے نہیں دیکھا اور ان کے علاروہ دوسرے نبیوں پر وحی الہام کی صورت میں نازل ہوتی تھی۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢١٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

یہ اس آیت (الشوریٰ : ٥١) کی مختصر تفسیر ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کی تین صورتیں بیان فرمائی ہیں : (١) اللہ تعالیٰ وحی فرمائے، پردہ کی اوٹ سے کلام فرمائے، یا فرشتہ کے ذریعہ کوئی پیغام بھیجے، اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے وحی پر مصل بحث کی ہے، ہرچند کہ ہم بتیان القرآن کی جلد اول میں اس پر بحث کرچکے ہیں لیکن آیت کی مناسبت سے یہاں بھی کچھ ضروری امور بیان کرنا چاہتے ہیں، اس بحث میں ہم وحی کا لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں گے، ضرورت وحی اور ثبوت وحی کو بیان کریں گے اور وحی کی اقسام بیان کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعاتۃ یلیق۔

وحی کا لغوی اور اصطلاحی معنی

علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں :

حدیث میں وحی کا بکثرت ذکر ہے، لکھنے، اشارہ کرنے، کی کو بھیجے، الہام اور کلام خفی پر وحی کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ (نہایہ ج ٤ ص ١٦٣، مطبوعہ مؤسسۃ مطبوعاتی ایران، ١٣٦٤ ھ)

علامہ مجد الدین فیروز آبادی لکھتے ہیں :

اشارہ، لکھنا، مکتوب، رسالۃ، الہام، کلام خفی، ہر وہ چیز جس کو تم غیر کی طرف القاء کروا سے اور آواز کو وحی کہتے ہیں۔ (قاموس ج ٤ ص ٥٧٩، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٢ ھ)

علامہ زبیدی لکھتے ہیں :

وحی اس کلام کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔ الانباری نے کہا : اس کو وحی اس لیے کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے اور وحی نبی کے ساتھ مخصوص ہے جس کو لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے، لوگ ایک دوسرے سے جو خفیہ بات کرتے ہیں وہ وحی کا اصل معنی ہے، قرآن مجید میں ہے :

وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا۔ (الانعام : 112)

اور اس طرح ہم نے سرکش انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنادیا جو خفیہ طور پر طمع کی ہوئی جھوٹی بات (لوگوں کو) دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں۔

اور ابواسحق نے کہا ہے کہ وحی کا لغت میں معنی ہے : خفیہ طریقہ سے خبر دینا، اسی وجہ سے الہام کو وحی کہتے ہیں، ازہری نے کہا ہے : اسی طرح سے اشارہ کرنے اور لکھنے کو بھی وحی کہتے ہیں، اشارہ کے متعلق یہ آیت ہے :

فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی الیھم ان سبحوا بکرۃ وعشیا (مریم :11)

سوزکریا اپنی قوم کے سامنے (عبادت کے) حجرہ سے باہر نکلے پس ان کی طرف اشارہ کیا کہ تم صبح اور شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو

اور انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ جو خفیہ طریقہ سے کلام کیا گیا اس کے متعلق ارشاد فرمایا :

وما کان لبشران یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورای حجاب اویرسل رسولا فیوجی باذنہ مایشاء۔ (الشوریٰ :51)

اور کوئی بشر اس لائق نہیں کہ اللہ سے کلام کرے، مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے، یا کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے وہ پہنچائے جو اللہ چاہے۔

بشر کی طرف وحی کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بشر کو خفیہ طور سے کسی چیز کی خبردے، یا الہام کے ذریعہ، یا خواب کے ذریعہ، اس پر کوئی کتاب نازل فرمائے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کتاب نازل کی تھی، یا جس طرح سیدنا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا اور یہ سب اعلام (خبردینا) ہیں، اگرچہ ان کے اسباب مختلف ہیں۔ (تاج العروس، ج ١٠ ص ٣٨٥، مطبوعہ المطبعۃ الخیریۃ، مصر، ١٣٠٦ ھ)

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں : وحی کا اصل معنی سرعت کے ساتھ اشارہ کرنا ہے، یہ اشارہ کبھی رمز اور تعریض کے ساتھ کلام میں ہوتا ہے اور کبھی محض آواز سے ہوتا ہے، کبھی اعضاء اور جوارح سے ہوتا ہے اور کبھی لکھنے سے ہوتا ہے، جو کلمات انبیاء اور اولیاء کی طرف القاء کیے جاتے ہیں ان کو بھی وحی کہا جاتا ہے، یہ القاء کبھی فرشتہ کے واسطے ہوتا ہے جو دکھائی دیتا ہے اور اس کا کلام سنائی دیتا ہے، جیسے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کسی خاص شکل میں آتے تھے۔ اور کبھی کسی کے دکھائی دئیے بغیر کلام سنا جاتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا اور کبھی دل میں کوئی بات ڈال دی جاتی ہے۔ جیسے حدیث میں ہے : جبرئیل نے میرے دل میں بات ڈال دی، اس کو نفسث فی الروع کہتے ہیں اور کبھی یہ القاء اور الہام کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسے اس آیت میں ہے :

واوحینا الی ام موسیٰ ان ازضعیہ۔ (القصص :7)

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایا کہ ان کو دودھ پلائو۔

اور کبھی یہ القاء تسخیر ہوتا ہے، جیسے اس آیت میں ہے :

واو علی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا ومن الشجر ومما یعرشون (النحل :68)

اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ ڈالا کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان چھیریوں میں گھر بنا جنہیں لوگ اونچا بناتے ہیں

اور کبھی خواب میں القاء کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے : نبوت منقطع ہوگئی ہے اور سچے خواب باقی رہ گئے ہیں۔ (المفردات میں ٥١٦۔ ٥١٥ ملخصا، مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ، ایران، ١٣٤٢ ھ)

علامہ ابن منظور افریقی نے بھی وحی کا معنی بیان کرتے ہوئے کم وبیش یہی لکھا ہے۔ (لسان العرب ج ١٥ ص ٣٨١۔ ٣٧٩، مطبوعہ نشرادب الحوزہ، رقم ایران)

علامہ بدر الدین عینی نے وحی کا اصطلاحی معنی یہ لکھا ہے :

اللہ کے نبیوں میں سے کسی نبی پر جو کلام نازل کیا جاتا ہے وہ وحی ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص ١٤، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، مصر، ١٣٤٨ ھ)

اور علامہ تفتازانی نے الہام کا معنی یہ بیان کیا ہے :

دل میں بطریق فیضان کسی معنی کو ڈالنا، یہ الہام ہے۔ (شرح عقائد نسفی ص ١٨، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی)

ضرورت وحی اور ثبوت وحی

انسان مدنی الطبع ہے اور مل جل کر رہتا ہے اور ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیے خوراک، کپڑوں اور مکان کی ضرورت ہوتی ہے اور افزائش نسل کے لیے نکاح کی ضرورت ہے۔ ان چار چیزوں کے حصول کے لیے اگر کوئی قانون اور ضابطہ نہ ہو تو ہر روز آور اپنی ضرورت کی چیزیں طاقت کے ذریعہ کمزور سے حاصل کرلے گا۔ اس لیے عدل اور انصاف کو قائم کرنے کی غرض سے کسی قانون کی ضرورت ہے او یہ قانون اگر کسی انسان نے بنایا تو وہ اس قانون میں اپنے تحفظات اور اپنے مفادات شامل کرے گا، اس لیے یہ قانون مافوق الانسان کا بنایا ہوا ہونا چاہیے تاکہ اس میں کسی کی جانب داری کا شائبہ اور وہم و گمان نہ ہو اور ایسا قانون صرف خدا کا بنایا ہوا قانون ہوسکتا ہے۔ جس کا علم خدا کے بتلانے اور اس کے خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔

انسان عقل سے خدا کے وجود کو معلوم کرسکتا ہے، عقل سے خدا کی وحدانیت کو بھی جان سکتا ہے، قیامت کے قائم ہونے، حشرونشر اور جزاء وسزا کو بھی عقل سے معلوم کرسکتا ہے لیکن وہ عقل سے اللہ تعالیٰ کے مفصل احکام کو معلوم نہیں کرسکتا۔ وہ عقل سے یہ جان سکتا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنا اچھی بات ہے اور ناشکری بری بات ہے لیکن وہ عقل سے یہ نہیں جان سکتا کہ اس کا شکر کس طرح ادا کیا جائے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے ہوگا اور اسی کا نام وحی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں عبث اور بےمقصد نہیں بھیجا بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور حقوق اور فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرے۔ برے کاموں اور بری خصلتوں سے بچے اور اچھے کام اور نیک خصلتیں اپنائے اور اللہ تعالیٰ کی عبادات کیا کیا ہیں ؟ اور وہ کس طرح ادا کی جائیں، وہ کون سے کام ہیں جن سے بچا جائے اور وہ کون سے کام ہیں جن کو کیا جائے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے بتلانے اور خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔

انسان کو بنیادی طور پر کھانے پینے کی اشیاء، کپڑوں اور مکان کی حاجت ہے اور اپنی نسل بڑھانے کے لیے ازدواج کی ضرورت ہے، لیکن اگر کسی قاعدہ اور ضابطہ کے بغیر ان چیزوں کو حاصل کیا جائے تو یہ نری (خالص) حیوانیت ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ سے ان کو حاصل کیا جائے تو یہ محض عبادت ہے اور اس قاعدہ اور ضابطہ کا علم اللہ تعالیٰ کے بتلانے اور اس کو خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔

بعض چیزوں کو ہم حواس کے ذریعہ جان لیتے ہیں جیسے رنگ، آواز اور ذائقہ کو اور بعض چیزوں کو عقل سے جان لیتے ہیں جیسے دو اور دو کا مجموعہ چار ہے یا مصنوع کے وجود سے صانع کے وجود کو جان لیتے ہیں، لیکن کچھ ایسی چیزیں جن کو حواس سے جانا جاسکتا ہے نہ عقل سے، مثلاً نماز کا کیا طریقہ ہے، کتنے ایام کے روزے فرض ہیں، زکوٰۃ کی کیا مقدار ہے اور کس چیز کا کھانا حلال ہے اور کسی چیز کا کھانا حرام ہے۔ غرض عبادات اور معاملات کے کسی شعبہ کو ہم حواس خمسہ اور عقل کے ذریعہ نہیں جان سکتے، اس کو جاننے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے وحی۔

بعض اوقات حواس غلطی کرتے ہیں مثلاً ریل میں بیٹھے ہوئے شخص کو درخت دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بخار زدہ شخص کو میٹھی چیز کڑوی معلوم ہوتی ہے اور حواس کی غلطیوں پر عقل تنبیہ کرتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات عقل بھی غلطی کرتی ہے، مثلاً عقل یہ کہتی ہے کہ کسی ضرورت مند کو مال نہ دیا جائے، مال کو صرف اپنے مستقبل کے لیے چا کر رکھا جائے اور جس طرح حواس کی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے، اسی طرح عقل کی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے لیے وحی کی ضرورت ہے۔

وحی کی تعریف میں ہم نے یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کو جو چیز بتلاتا ہے وہ وحی ہے اور نبوت کا ثبوت معجزات سے ہوتا ہے، اب یہ بات بحث طلب ہے کہ وحی کے ثبوت کے لیے نبوت کیوں ضروری ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر نبوت کے بغیر وحی کا ثبوت ممکن ہوتا تو اس دنیا کا نظام فاسد ہوجاتا، مثلاً ایک شخص کسی کو قتل کردیتا اور کہتا : مجھ پر وحی اتری تھی کہ اس شخص کو قتل کردو۔ ایک شخص بہ زور کسی کا مال اپنے قبضہ میں کرلیتا اور کہتا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی تھی کہ اس کے مال پر قبضہ کرلو، اس لیے ہر کس وناکس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ وحی کا دعویٰ کرے۔ وحی کا دعویٰ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت پر فائز کیا ہو۔ لہٰذا وحی کا دعویٰ صرف نبی ہی کرسکتا ہے اور نبوت کا دعویٰ تب ثابت ہوگا جب وہ اس کے ثبوت میں معجزات پیش کرے گا۔

ایک سوال یہ ہوا کہ جب نبی کے پاس فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو نبی کو کیسے یقین ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ ہے اور یہ اللہ کا کلام لے کر آیا ہے، امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ فرشتہ نبی کے سامنے اپنے فرشتہ ہونے اور حامل وحی الٰہی ہونے پر معجزہ پیش کرتا ہے اور امام غزالی کی بعض عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کو ایسی صفت عطا فرماتا ہے جس سے وہ جن، فرشتہ اور شیطان کو الگ الگ پہچانتا ہے جیسے ہم انسانوں، جانوروں اور نباتات اور جمادات کو الگ الگ پہچانتے ہیں کیونکہ ہماری رسائی صرف عالم شہادت تک ہے اور نبی کی پہنچ عالم شہادت میں بھی ہے اور عالم غیب میں بھی ہے۔

وحی کی اقسام

بنیادی طور پر وحی کی دو قسمیں ہیں : وحی متلو، اور وحی غیر متلو، اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الفاظ اور معانی کا نزول ہو تو یہ وحی متلو ہے اور یہی قرآن مجید ہے اور اگر آپ پر صرف معانی نازل کیے جائیں اور آپ ان معانی کو اپنے الفاظ سے تعبیر کریں تو یہی وحی غیر متلو ہے اور اس کو حدیث نبوی کہتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کی متعدد صورتیں ہیں جن کا احادیث صحیحہ میں بیان کیا گیا ہے۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ ام المؤمنین (رض) بیان کرتی ہیں کہ حضرت حارث بن ہشام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا اور کہا : یارسول اللہ ! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کبھی کبھی وحی گھنٹی کی آواز کی طرح (مسلسل) آتی ہے اور یہ مجھ پر بہت شدید ہوتی ہے، یو وحی (جب) منقطع ہوتی ہے تو میں اس کو یاد کرچکا ہوتا ہوں اور پھر کبھی میرے پاس فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے، وہ مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو کچھ وہ کہتا جاتا ہے میں اس کو یاد کرتا جاتا ہوں۔ حضرت عائشہ نے کہا : میں نے دیکھا ہے کہ سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی نازل ہوتی اور جس وقت وحی ختم ہوتی تھی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا تھا۔ (صحیح البخاری ج ١ ص ٢، مطبوعہ نور محمد اصح المطابع، کراچی، ١٣٨١ ھ)

اس حدیث پر یہ سوال ہوتا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول وحی کی صرف دو صورتیں بیان کی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟ علامہ بدرالدین عینی نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ یہ ہے کہ قائل اور سامع میں کوئی مناسبت ہونی چاہیے تاکہ ان میں تعلیم اور تعلم اور افادہ اور استفادہ متحقق ہوسکے اور یہ انصاف یا تو اس طرح ہوگا کہ سامع پر قائل کی صفت کا غلبہ ہوا اور وہ قائل کی صفت کے ساتھ متصف ہوجائے اور صلصلۃ الجرس (گھنٹی کی آواز) سے یہی پہلی قسم مراد ہے، اور یا قائل سامع کی صفت کے ساتھ متصف ہوجائے اور یہ دوسری قسم ہے جس میں فرشتہ انسانی شکل میں متشکل ہو کر آپ سے کلام کرتا تھا۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کی پہلی قسم کی تشبیہ گھنٹی کی آواز کے ساتھ دی ہے، جس کی آواز مسلسل سنائی دیتی ہے اور اس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا، اس میں آپ نے یہ متنبہ کیا ہے کہ جس وقت یہ وحی قلب پر نازل ہوتی ہے تو آپ کے قلب پر خطاب کی ہیبت طاری ہوتی ہے اور وہ قول آپ کو حاصل ہوجاتا ہے لیکن اس قول اس قول کے ثقل کی وجہ سے اس وقت آپ کے قلب پر خطاب کی ہیبت طاری ہوتی ہے اور وہ قول آپ کو حاصل ہوجاتا ہے لیکن اس قول کے ثقل کی وجہ سے اس وقت آپ کو اس کا پتا نہیں چلتا اور جب اس جلال کی ہیبت زائل ہوجاتی ہے تو پھر آپ کو اس کا علم ہوتا ہے اور وحی کی یہ قسم ایسی ہے جیسے ملائکہ پر وحی نازل ہوتی ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پروں کو جھڑجھڑاتے ہیں جیسے پتھر پر زنجیر ماری جائے اور جب ان کے دلوں سے وہ ہیبت زائل ہوتی ہے تو وہ آپس میں کہتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں : حق کی پہلی قسم دوسری سے شدید ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت بشری سے فرشتہ کی حالت کی طرف منتقل ہوتے تھے، پھر آپ پر اس طرح وحی کی جاتی تھی جس طرح فرشتوں پر وحی کی جاتی ہے اور یہ آپ کے لیے مشکل تھا اور دوسری قسم میں فرشتہ انسانی شکل میں آتا تھا اور یہ قسم آپ کے لیے آسان تھی۔

(عمدۃ القاری ج ١ ص ٤٤، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، مصر، ١٣٤٨ ھ)

یہ بھی کہا جاسکتا کہ گھنٹی کی آواز میں ہرچند کہ عام لوگوں کے لیے کوئی معنی اور پیغام نہیں ہوتا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس آواز میں کوئی معنی اور پیغام ہوتا تھا جیسا کہ اس ترقی یافتہ دور میں ہم دیکھتے ہیں جب ٹیلی گرام دینے کا عمل کیا جاتا ہے تو ایک طرف سے صرف ٹک ٹک کی آواز ہوتی ہے اور دوسرے طرف اس سے پورے جملے بنالیے جاتے ہیں، اسی طرح ہوسکتا ہے کو وحی کی یہ آواز بظاہر صرف گھنٹی کی مسلسل ٹن ٹن کی طرح ہو اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس میں پورے پورے فصیح وبلیغ جملے موجود ہوں۔

علامہ بدرالدین عینی نے نزول وحی کی حسب ذیل اقسام بیان کی ہیں :

(١) کلام قدیم کو سننا جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا، جس کا ذکر آثار صحیحہ میں ہے۔

(٢) فرشتہ کی رسالت کے واسطہ سے وحی کا موصول ہونا۔

(٣) وحی کو دل میں القاء کیا جائے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : روح القدس نے میرے دل میں القاء کیا۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف اسی طرح وحی کی جاتی تھی اور انبیاء (علیہم السلام) کے غیر کے لیے جو وحی کا لفظ بولا جاتا ہے وہ الہام یا تسخیر کے معنی میں ہوتا ہے۔

علامہ سہیلی نے الروض الانف (ج ١ ص ١٥٤۔ ١٥٣، مطبوعہ ملتان) میں نزول وحی کی یہ سات صورتیں بیان کی ہیں :

(١) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیند میں کوئی واقعہ دکھایا جائے۔

(٢) گھنٹی کی آواز کی شکل میں آپ کے پاس وحی آئے۔

(٣) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب میں کوئی معنی القاء کیا جائے۔

(٤) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فرشتہ انسانی شکل میں آئے اور حضرت جبرئیل آپ کے پاس حضرت وحیہ کلبی (رض) کی شکل میں آئیں، حضرت وحیہ کی شکل میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ حسین ترین شخص تھے، حتیٰ کہ وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر چلا کرتے تھے، مبادا عورتیں ان کو دیکھ کر فتنہ میں مبتلا ہوں۔

(٥) حضرت جبرائیل آپ کے پاس اپنی اصلی صورت میں آئیں، اس صورت میں ان کے چھ سو پر تھے جن سے موتی اور یاقوت جھڑتے تھے۔

(٦) اللہ تعالیٰ آپ سے یا تو بیداری میں پردہ کی اوٹ سے ہم کلام ہو جیسا کہ معراج کی شب ہوا، یا نیند میں ہم کلام ہو، جیسے جامع ترمذی میں ہے : اللہ تعالیٰ میرے پاس حسین صورت میں آیا اور فرمایا : ملاء اعلیٰ کس چیز میں بحث کررہے ہیں۔

(٧) اسرافیل (علیہ السلام) کی وحی، کیونکہ شعبی سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت اسرافیل کے سپرد کردیا گیا تھا اور وہ تین سال تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے رہے اور وہ آپ کے پاس وحی لاتے تھے، پھر آپ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے سپرد کردیا گیا اور مسند احمد میں سند صحیح کے ساتھ شعبی سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا اور تین سال تک آپ کی نبوت کے ساتھ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) رہے اور وہ آپ کو بعض کلمات اور بعض چیزوں کی خبر دیتے تھے، اس وقت تک آپ پر قرآن مجید نازل نہیں ہوا تھا اور جب تین سال گزر گئے تو پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس رہے، پھر بیس سال آپ پر آپ کی زبان میں قرآن مجید نازل ہوا، دیں سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں اور تریسٹھ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔ البتہ واقدی وغیرہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے علاوہ آپ کو اور کسی فرشتہ کے سپرد نہیں کیا گیا۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص ٤٠، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، مصر، ١٣٤٨ ھ)

اللہ تعالیٰ کے دیدار کے ساتھ اس سے ہم کلام ہونے کے متعلق شارحین حدیث کی تحقیق

مفسرین نے اس چیز میں بحث کی ہے کہ آیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا تھا، آیا اس وقت آپ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے یا نہیں ؟ صاحب کشاف اور بعض دیگر مفسرین نے کہا : آپ نے اللہ تعالیٰ سے کلام فرمایا، لیکن حجاب کی اوٹ سے کلام فرمایا، کیونکہ قرآن مجید میں فرمایا ہے : ” اور کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے ماسواوحی کے یا پردہ کی اوٹ سے یا اللہ کسی فرشتے کو بھیج دے “۔ الایۃ (الشوریٰ :51)

قرآن مجید کی اس آیت کی بناء پر حضرت عائشہ نے اس بات کا انکار کیا کہ شب معراج سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٨٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٠٦٨ )

علامہ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المالکی المتوفی ٦٥٦ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

متقدمین اور متاخرین کا اس میں اختلاف ہے آیا اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے یا نہیں، اکثر مبتدعین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں ممکن ہے، پھر اس میں اختلاف ہے کہ آیا ہمارے نبی سیدنا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے یا نہیں، اس میں بھی متقدمین اور متاخرین کا اختلاف ہے، حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن مسعود (رض) کا مؤقف یہ ہے کہ آپ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا اور متکلمین اور محدثین کی ایک جماعت کا بھی یہی موقف ہے اور متقدمین کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ آپ نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، حضرت ابن عباس (رض) کا بھی یہی مسلک ہے، انہوں نے فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کلام کے ساتھ مخصوص ہیں، حضرت ابراہیم خلیل ہونے کے ساتھ مخصوص ہیں اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیدار کے ساتھ مخصوص ہیں، حضرت ابوذر، حضرت کعب اور امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مؤقف ہے، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوہریرہ کا بھی ایک قول اسی طرح ہے، امام ابوالحسن اشعری اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت سے بھی یہی قول منقول ہے اور مشائخ کی ایک جماعت نے اس میں توقف کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اس مسئلہ کے ثبوت میں کوئی دلیل قطعی ہے نہ اس کی نفی میں کوئی دلیل قطعی ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہے، جیسا کہ دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے ثابت ہے، دلائل عقلیہ علم کلام میں مذکور ہیں اور دلائل نقلیہ میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنے رب سے دیدار کا سوال کرنا ہے۔ ” رب ارنی انظر الیک “ (الاعراف :143) اے رب ! مجھے اپنی ذات دکھا، میں تیری طرف دیکھوں گا۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو علم تھا کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کا سوال کرنا جائز ہے، اگر ان کو معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہے تو وہ اس کو دیکھنے کا سوال نہ کرتے۔

نیز قرآن مجید میں ہے :

وجوۃ یومئذ نضرۃ الی ربھانا ظرۃ (القیامۃ :22-23)

کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے

وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ احسان قرار دیا ہے کہ وہ آخرت میں اس کی طرف دیکھیں گے اور جب بندوں کا آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن ہے تو دنیا میں بھی دیکھنا ممکن ہے، کیونکہ احکام عقلیہ کے لحاظ سے دونوں وقتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اسی طرح احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے کہ مؤمنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جب آخرت میں دیکھنا ثابت ہے تو پھر دنیا میں بھی دیکھنا ثابت ہوگا۔

پھر اس میں بحث ہے کہ شب معراج ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے یا نہیں، اس میں بھی کسی جانب دلیل قطعی نہیں ہے، نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ شب معراج آپ نے اللہ تعالیٰ سے بلاوسطہ کلام کیا ہے یا نہیں، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، جعفر بن محمد اور ابوالحسن اشعری کا مؤقف ہے کہ آپ نے اپنے رب سے بلاواسطہ کلام کیا ہے اور متکلمین کی ایک جماعت کا بھی یہی مسلک ہے اور ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے اور اس میں بھی اسی طرح طرفین کے دلائل ہیں جس طرح دیدار کے مسئلہ میں دلائل ہیں۔

بلکہ بعض مشائخ نے الشوریٰ : ٥١ سے اس پر استدلال کیا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور اس سے بلاواسطہ کلام کیا ہے، انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے کی تین قسمیں ہیں : (١) حجاب کی اوٹ سے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کلام کیا (٢) فرشتوں کو بھیج کر جس طرح تمام انبیاء (علیہم السلام) نے کلام کیا (٣) اس کے بعد صرف ایک قسم رہ گئی اور وہ ہے کہ مع المشاہدہ کلام ہو، تاہم اس استدلال پر نظر ہے۔ (المفہم ج ١ ص ٤٠٥۔ ٤٠١، ملخصا، دارابن کثیر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

اور اس حدیث کی شرح میں علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

اس بحث میں اصل چیز حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث ہے : حضرت ابن عمر (رض) نے ایک شخص کو حضرت ابن عباس کے پاس بھیجا اور ان سے اس مسئلہ میں استفسار کیا، حضرت ابن عباس نے فرمایا، حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے، حضرت عائشہ (رض) کے انکار سے اس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ حضرت عائشہ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ” میں نے اپنے رب کو دیکھا “ حضرت عائشہ (رض) نے اپنے طور سے قرآن مجید سے استدلال کرکے یہ نتیجہ نکالا اور جب صحابی کوئی مسئلہ بیان کرے اور دوسرا صحابی اس کی مخالفت کرے تو اس کا قول حجت نہیں ہوتا اور جب صحیح روایات کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے تو ان روایات کو قبول کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا واقعہ ان مسائل میں سے نہیں ہے جن کو عقل سے مستنبط کیا جاسکے یا ان کے ظن سے بیان کیا جائے، یہ صرف اسی صورت پر محمول کیا جاسکتا ہے کہ کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہو اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت ابن عباس نے اپنے ظن اور قیاس سے یہ کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، علامہ معمر بن راشد نے کہا : اس مسئلہ میں حضرت عائش اور حضرت ابن عباس کا اختلاف ہے اور حضرت عائشہ، حضرت ابن عباس سے زیادہ عالم نہیں ہیں، حضرت ابن عباس کی روایات رویت باری کا اثبات کرتی ہیں اور حضرت عائشہ وغیرھا کی روایات رئویت کی نفی کرتی ہے اور جب مثبت اور منفی روایات میں تعارض ہو تو مثبت روایات کو منفی پر ترجیح دی جاتی ہے۔

حاصل بحث یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ شب معراج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا ہے اور حضرت عائشہ (رض) نے کسی حدیث کی بناء پر رئویت کا انکار نہیں کیا، اگر اس سلسلہ میں ان کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو وہ اس کا ذکر کرتیں، حضرت عائشہ (رض) نے اس مسئلہ کا قرآن مجید کی آیات سے استنباط کیا ہے، اس کے جواب کو ہم واضح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

لاتدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار۔ (الانعام :103)

نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ سب آنکھوں کا ادراک کرتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کیونکہ ادراک سے مراد احاطہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور جب قرآن مجید میں احاطہ کی نفی کی گئی ہے تو اس سے بغیر احاطہ کی رئویت کی نفی لازم نہیں آتی۔ حضرت عائشہ (رض) کا دوسرا استدلال اس آیت سے ہے :

وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا اومن ورای حجاب اویرسل رسولا۔ (الشوری :51)

اور کسی بشر کے لائق نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی سے یا پردہ کے پیچھے سے یا اللہ کوئی فرشتہ بھیج دے۔

اس آیت سے استدلال کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) اس آیت میں رئویت کے وقت کلام کی نفی کی گئی ہے تو یہ جائز ہے کہ جس وقت آپ نے اللہ کا دیدار کیا ہو اس وقت اس سے کلام نہ کیا ہو۔

(٢) یہ آیت عام مخصوص عنہ البعض ہے اور اس کا مخصص وہ دلائل ہیں جن سے رئویت ثابت ہے، خلاصہ یہ ہے کہ عام قاعدہ یہی ہے، لیکن سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قاعد ہے سے مستثنیٰ ہیں۔

(٣) مشاہدہ کے وقت جس وحی کی نفی کی گئی ہے وہ بلاواسطہ وحی ہے اور ہوسکتا ہے کہ دیدار کے وقت آپ پر کسی واسطہ سے وحی کی گئی ہو۔

جمہور مفسرین کا یہ مختار ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب اسراء اپنے رب سبحانہ وتعالیٰ کا دیدار کیا، پھر ان کا اس میں اختلاف ہے کہ آپ نے دل کی آنکھوں سے دیدار کیا یا سر کی آنکھوں سے، امام ابوالحسن الواحدی نے بیان کیا : مفسرین نے کہا : ان احادیث میں یہ بیان ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج اپنے رب کا دیدار کیا، حضرت ابن عباس، حضرت ابوذر اور حضرت ابراہیم تیمی نے یہ کہا کہ آپ نے دل سے دیدار کیا، امام الحسن نے کہا : اس رائے کے مطابق آپ نے صحیح طریقہ سے اپنے رب کو دل کی آنکھوں سے دیکھا اور وہ طریقہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی آنکھ آپ کے دل میں رکھ دی، یا آپ کے دل میں ایک آنکھ پیدا کردی حتیٰ کہ آپ نے اس طرح رئویت صحیحہ کے ساتھ اپنے رب کو دیکھا جس طرح سر کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، امام ابوالحسن نے کہا اور مفسرین کی ایک جماعت کا یہ نظریہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھا، یہ حضرت انس، مکرمہ، حسن اور ربیع کا قول ہے۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١ ص ٩٨٥۔ ٩٧٤ ملخصا نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جس رئویت کی نفی کی گئی ہے وہ رئویت علی وجہ الاحاطہ ہے، نیز علامہ قرطبی نے مفہم شرح مسلم میں لکھا ہے کہ الابصار جمع معرف باللام ہے اور یہ تخصیص کو قبول کرتی ہے، اس لیے اس (لاتدر کہ الابصار الانعام ١٠٣) کا معنی یہ ہے کہ کفار کی آنکھیں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں اور اس تخصیص پر یہ دلیل ہے کہ قرآن مجید میں کافروں کے متعلق ہے :

کلا انھم عن ربھم یومئذ المحجوبون (المطففین :15)

حق یہ ہے کہ بیشک وہ (کفار) اس دن وہی اپنے رب کے دیدار سے ضرور محروم ہوں گے

اور قرآن مجید میں مؤمنوں کے متعلق ہے :

وجوہ یومئیذ ناضرۃ الی ربھا ناطرۃ (القیامۃ :22-23)

کتنے ہی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے

اور جب آختر میں اللہ تعالیٰ کی رئویت جائز ہے تو دنیا میں بھی جائز ہے کیونکہ دونوں وقتوں میں بحیثیت امکان کوئی فرق نہیں، علامہ قرطبی کا یہ استدلال بہت عمدہ ہے، قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو عقلاً دیکھنا جائز ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مؤمنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، امام مالک نے کہا : مومن دنیا میں اللہ تعالیٰ کو اس لیے نہیں دیکھ سکتے کہ دنیا میں مومن فانی ہیں اور اللہ تعالیٰ باقی ہے اور فانی باقی کو نہیں دیکھ سکتا اور آخرت میں مؤمنین کو بقا عطا کی جائے گی تو پھر وہ باقی آنکھوں سے بقاء کا جلوہ دیکھ لیں گے اور اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حیدث میں ہے : جب تک تم پر موت نہ آئے تم ہرگز اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔ تو اگرچہ عقلاً دنیا میں رئویت جائز ہے لیکن شرعاً ممتنع ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے رئویت کے ثبوت کی دلیل یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام کے عموم میں داخل نہیں ہوتا (یا یہ قاعدہ عام مخصوص عنہ البعض ہے) ۔

متقدمین کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، حضرت عائشہ اور حضرت ابن مسعود رئویت کا انکار کرتے ہیں، حضور ابوذر سے روایات مختلف ہیں اور ایک جماعت کے نزدیک رئویت ثابت ہے، امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں کہ حسن بصری قسم کھا کر کہتے ہیں تھے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے، کعب احبار، زہری، معمر اور دوسروں نے اسی پر وثوق کیا ہے۔ امام ابوالحسن اشعری اور ان کے اکثر متبعین کا بھی یہی قول ہے۔ پھر اس میں اختلاف ہے کہ آپ نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا یا دل کی آنکھوں سے دیکھا ؟ اس میں امام احمد کے دو قول ہیں، بعض احادیث میں حضرت ابن عباس نے مطلقاً کہا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا اور بعض روایات میں ہے : آپ نے اپنے دل سے دیکھا اور مطلق روایت کو مقید پر حمل کرنا واجب ہے، امام نسائی نے سند صحیح کے ساتھ اور امام احمد کے دو قول ہیں، بعض احادیث میں حضرت ابن عباس نے مطلقاً کہا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا اور بعض روایات میں ہے : آپ نے اپنے دل سے دیکھا اور مطلق روایت کو مقید پر عمل کرنا واجب ہے، امام نسائی نے سندصحیح کے ساتھ اور امام حاکم نے تصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کو خلت حضرت ابراہیم کے لیے ہو، کلام حضرت موسیٰ کے لیے ہوا اور رئویت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہوا، اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے بھی روایت کیا ہے اور امام ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے کسی شخص کو حضرت ابن عباس کے پاس بھیجا اور یہ پوچھا : آیا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو حضرت ابن عباس نے جواب دیا : ہاں ! اور امام مسلم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے : ” آپ نے اپنے رب کو دوبارہ اپنے دل سے دیکھا “ اور امام ابن مردویہ نے صراحت کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ آپ نے سر کی آنکھوں سے اپنے رب کو نہیں دیکھا، اپنے دل سے دیکھا ہے اور اب حضرت عائشہ کی نفی اور حضرت ابن عباس کے اثبات کو جمع کرنا ممکن ہے، پاس طور کہ حضرت عائشہ کی نفی کو رئویت بصری پر محمول کیا جائے اور حضرت ابن عباس کی اثبات کو رئویت قلبی پر محمول کیا جائے اور رئویت قلبی سے فقط حصول علم مراد نہیں ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا دائما علم تھا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے قلب کو اس طرح رئویت حاصل ہوئی جس طرح دوسروں کو آنکھ سے رئویت حاصل ہوتی ہے۔ (فتح الباری ج ٨ ص ٦٠٩۔ ٦٠٧، ملخصا، لاہور، ١٤٠١ ھ)

علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں :

اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس وغیرہ کی حدیث میں ہے اور اس چیز کا اثبات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سماع کے بغیر ممکن نہیں ہے، حضرت عائشہ نے جو کہا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی حدیث پر اس کی بنیاد نہیں رکھتی، ان کا استدلال قرآن مجید کی آیات سے ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جس ادراک کی نفی ہے وہ ادراک علی وجہ الاحاطہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور جب قرآن مجید میں احاطہ رئویت کی نفی کی گئی ہے تو اس سے بلا احاطہ رئویت کی نفی لازم نہیں آتی۔ (الدیباج ج ١ ص ٢٤٧، ادارۃ القرآن، کراچی، ١٤١٢ ھ)

علامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت عائشہ (رض) رئویت کی نفی کرتی ہیں اور حضرت ابن عباس (رض) رئویت باری کا اثبات کرتے ہیں، ان میں کیسے موافقت ہوگی، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ رئویت بصری کا انکار کرتی ہیں اور حضرت ابن عباس رئویت قلبی کا اثبات کرتے ہیں، امام ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں بہت تفصیل سے شب معراج میں رئویت باری کو ثابت کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ایک مرتبہ سر کی آنکھوں سے اور ایک مرتبہ دل کی آنکھوں سے۔ (عمدۃ القاری ج ١٩ ص ١٩٩، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، مصر، ١٣٤٨ ھ)

علامہ شہاب الدین احمد خفا جی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) کی زیادہ مشہور روایت یہ ہے کہ آپ نے شب اسراء اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، یہ حدیث حضرت ابن عباس سے متعدد اسانید کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث حضرت ابن عباس کی اس روایت کے منافی نہیں ہے کہ آپ نے اپنے رب کو دل سے دیکھا جیسا کہ قرآن مجید میں ہیں :

ماکذب الفواد ما رای مازغ البصر وما طغی (النجم :17-11)

آپ کی آنکھ نے جو جلوہ دیکھا دل نے اس کی تکذیب نہیں کی آپ کی نظر ایک طرف مائل ہوئی نہ حد سے بڑھی

امام حاکم، امام نسائی اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے (بلاواسطہ) کلام کے ساتھ حضرت موسیٰ کو خاص کرلیا اور حضرت ابراہیم کو خلیل ہونے کے ساتھ خاص کرلیا اور حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رئویت کے ساتھ خاص کرلیا، اس سے مراد رئویت بصری ہے نہ کہ رئویت قلبی، کیونکہ رئویت قلبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہیں، پھر ہم کلام ہونا حضرت موسیٰ کی اور خلیل ہونا حضرت ابراہیم کی خصوصیت کیسے رہی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہرچند کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام اعلیٰ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہوئے اور آپ خلیل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے محبوب بھی ہیں، لیکن حضرت موسیٰ کا کلیم ہونا اور حضرت ابراہیم کا خلیل ہونا ایک وصف مشہور تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے زمین پر ہم کلام ہوا اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ عرش پر ہم کلام ہو۔ (نسیم الریاض ج ١ ص ٢٨٨۔ ٢٨٧، دارالفکر، بیروت)

ملا علی قاری حنفی نے بھی اختصار کے ساتھ یہی لکھا ہے۔ (شرح الشفاء علی ھامش نسیم الریاض ج ٢ ص ٢٨٨، ٢٨٧، دارالفکر، بیروت)

اللہ تعالیٰ کے دیدار کے ساتھ اس سے ہم کلام ہونے کے متعلق مفسرین کی تحقیق

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ الشوریٰ : ٥١ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ بغیر وحی کے کسی شخص کا اللہ ہم کلام ہونا ممکن نہیں ہے، یعنی وحی کے ذریعہ ہم کلام ہونا ممکن ہے اور یہ وحی اس سے عام ہے کہ اللہ تعالیٰ بالمشافہہ اور بالمشاہدہ بندہ سے ہم کلام ہو جیسا کہ معراج کی حدیث میں ہے یا اس صورت میں ہم کلام ہو کہ اس کا کلام تو سنائی دے اور اس کی ذات دکھائی نہ دے جیسا کہ وادی طویٰ اور پہاڑ طور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تھا۔ (تفسیر بیضاوی مع الخفاجی ج ٨ ص ٣٦٧۔ ٣٦٦، دارلکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٧ ھ)

اس عبارت کی شرح میں علامہ خفا جی متوفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں :

بالمشافہہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بلاواسطہ مخاطب ہوا جیسا کہ حدیث معراج میں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٢) اللہ تعالیٰ نے آپ پر تجلی فرمائی اور آپ سے کلام فرمایا اور آپ پر نمازیں فرض کیں اور آپ سے یہ وعدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے بالمشافہ کلام فرمائے گا۔ (عنایۃ القاضی ج ٨ ص ٣٦٧، بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ علی بن محمد خازن متوفی ٧٢٥ ھ لکھتے ہیں :

یہ آیت اس پر محمول ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی سے بالمشافہہ کلام نہیں فرمائے گا، اس کی تفصیل سورة النجم میں آئے گی۔ (تفسیر الخازن ج ٤ ص ١٠٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اور سورة والنجم میں لکھتے ہیں :

خلاصہ یہ ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک راجح یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو شب معراج سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس اور حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور یہ بات وہ اپنی رائے سے نہیں کہہ سکتے، سو یہ حدیث آپ سے سماع پر محمول ہے (اور معراج کا واقعہ امور آخرت سے ہے، اس لیے الشوریٰ : ٥١ میں جو بالمشافہہ کلام کی نفی ہے وہ دنیا میں ہے اور وہ شب معراج بالمشافہ کلام کرنے کے منافی نہیں ہے) ۔ (تفسیر الخازن ج ٤ ص ٢٠٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

اکثر علماء اس پر متفق ہیں کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب سبحانہ کو شب معراج دیکھا ہے کیونکہ اکثر روایات میں دیکھنے کی تصریح ہے، ہاں ان روایات میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آپ نے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، لیکن دیکھنے سے ظاہر یہی ہے کہ آپ نے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے، امام اشعری اور متکلمین کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ اللہ عزوجل نے ہمارے نبی سے اس رات بلاواسطہ کلام فرمایا اور جعفر بن محمد الباقر، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود (رض) سے بھی یہی روایت ہے اور احادیث صحیحہ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کیں، پھر کم کرتے کرتے آخر میں پانچ نمازیں فرض کردیں۔ (روح المعانی جز ٢٥ ص ٨٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 51