كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۴۱)

ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا

اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۴۲)

جب کہ اُن سے ان کے ہم قوم صالح نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں

اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۴۳)

بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۴۴)

تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو

وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۴۵)

اور میں تم سے کچھ اس پر اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے

اَتُتْرَكُوْنَ فِیْ مَا هٰهُنَاۤ اٰمِنِیْنَۙ(۱۴۶)

کیا تم یہاں کی (ف۱۳۰) نعمتوں میں چین سے چھوڑ دئیے جاؤ گے (ف۱۳۱)

(ف130)

یعنی دنیا کی ۔

(ف131)

کہ یہ نعمتیں کبھی زائل نہ ہوں اور کبھی عذاب نہ آئے کبھی موت نہ آئے آگے ان نعمتوں کا بیان ہے ۔

فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۱۴۷)

باغوں اور چشموں

وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیْمٌۚ(۱۴۸)

اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا شگوفہ نرم نازک

وَ تَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِهِیْنَۚ(۱۴۹)

اور پہاڑوں میں سے گھر تراشتے ہو استادی سے (ف۱۳۲)

(ف132)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ فرہ بمعنٰی فخر و غرور ہے معنٰی یہ ہوئے کہ اپنی صنعت پر غرور کرتے اتراتے ۔

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۵۰)

تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو

وَ لَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۵۱)

اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو (ف۱۳۳)

(ف133)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ مُسرفین سے مراد مشرکین ۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ مُسرفین سے مراد وہ نو شخص ہیں جنہوں نے ناقہ کو قتل کیا تھا ۔

الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ(۱۵۲)

وہ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں (ف۱۳۴) اوربناؤ نہیں کرتے (ف۱۳۵)

(ف134)

کُفر و ظلم اور معاصی کے ساتھ ۔

(ف135)

ایمان لا کر اور عدل قائم کر کے اور اللہ کے مطیع ہو کر ۔ معنٰی یہ ہیں کہ ان کا فساد ٹھوس ہے جس میں کسی طرح نیکی کا شائبہ بھی نہیں اور بعض مُفسدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کچھ فساد بھی کرتے ہیں کچھ نیکی بھی ان میں ہوتی ہے مگر یہ ایسے نہیں ۔

قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَۚ(۱۵۳)

بولے تم پر تو جادو ہوا ہے (ف۱۳۶)

(ف136)

یعنی بار بار بکثرت جادو ہوا ہے جس کی وجہ سے عقل بجا نہیں رہی ۔ (معاذا للہ)

مَاۤ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۚۖ-فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۵۴)

تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو تو کوئی نشانی لاؤ (ف۱۳۷) اگر سچے ہو (ف۱۳۸)

(ف137)

اپنی سچائی کی ۔

(ف138)

رسالت کے دعوٰی میں نہیں ۔

قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّ لَكُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۚ(۱۵۵)

فرمایا یہ ناقہ ہے ایک دن اُس کے پینے کی باری (ف۱۳۹) اور ایک معین دن تمہاری باری

(ف139)

اس میں اس سے مزاحمت نہ کرو ۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو ان کے معجِزہ طلب کرنے پر ان کے حسب خواہش بدعائے حضرت صالح علیہ السلام پتھر سے نکلی تھی اس کا سینہ ساٹھ گز کا تھا جب اس کے پینے کا دن ہوتا تو وہ وہاں کا تمام پانی پی جاتی اور جب لوگوں کے پینے کا دن ہوتا تو اس دن نہ پیتی ۔ (مدارک)

وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۵۶)

اور اسے برائی کے ساتھ نہ چھوؤ (ف۱۴۰) کہ تمہیں بڑے دن کا عذاب آلے گا (ف۱۴۱)

(ف140)

نہ اس کو مارو نہ اس کی کونچیں کاٹو ۔

(ف141)

نُزولِ عذاب کی وجہ سے اس دن کو بڑا فرمایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ وہ عذاب اس قدر عظیم اور سخت تھا کہ جس دن میں وہ واقع ہوا اس کو اس کی وجہ سے بڑا فرمایا گیا ۔

فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ(۱۵۷)

اس پر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں (ف۱۴۲) پھر صبح کو پچتا تے رہ گئے (ف۱۴۳)

(ف142)

کونچیں کاٹنے والے شخص کا نام قِدار تھا اور وہ لوگ اس کے اس فعل سے راضی تھے اس لئے کونچیں کاٹنے کی نسبت ا ن سب کی طرف کی گئی ۔

(ف143)

کونچیں کاٹنے پر نُزولِ عذاب کے خوف سے نہ کہ معصیت پر تائبانہ نادم ہوئے ہوں یا یہ بات کہ آثارِ عذاب دیکھ کر نادم ہوئے ایسے وقت کی ندامت نافع نہیں ۔

فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۵۸)

تو انہیں عذاب نے آ لیا (ف۱۴۴) بےشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے

(ف144)

جس کی انہیں خبر دی گئی تھی تو ہلاک ہو گئے ۔

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۱۵۹)

اور بےشک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے