وہابیوں کی انگلش تفسیر ابن کثیر میں تحریفات:

حافظ ابن کثیر جن کو سلفی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ استوا کی تفصیل میں کہتے ہیں:

فللناس في هذا المقام مقالات كثيرة جداً ليس هذا موضع بسطها وإنما نسلك في هذا المقام مذهب السلف الصالح مالك والأوزاعي والثوري والليث بن سعد والشافعي وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وغيرهم من أئمة المسلمين قديماً وحديثاً وهو إمرارها كما جاءت من غير تكييف ولا تشبيه ولا تعطيل والظاهر المتبادر إلى أذهان المشبهين منفي عن الله لا يشبهه شيء من خلقه و{لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ

صحیح ترجمہ: {پھر اس نے استویٰ کیا عرش پر (جیسے اس کی شان کے لائق ہے)}۔ لوگوں کی اس پر کئی آراء ہیں اور یہ ایسا مقام نہیں جہاں اس کو مکمل طور پر پیش کیا جائے۔ اس نقطہ پر ہم سلف کی پیروی کرتے ہیں، یعنی مالک، الاوزاعی ، سفیان ثوری ، لیث ابن سعد، الشافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، اس کے علاوہ دیگر مسلمانوں کے آئمہ کی۔ “کہ اسے گزرنے دو جیسے یہ آئی ہے اور اس سے کوئی کیفیت نہ نکالو” نہ ہی کسی مخلوق سے تشبیہ دو نہ ہی اس کا رد کرو ، مجسمہ کے ذہن میں آنے والا ظاہری معنی کی اللہ پر نفی کی جائے کیونکہ کسی بھی چیز کی تخلیق اس سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی ہے۔ (کوئی شہ اس کی مثل نہیں ہے اور وہ سب سننے اور دیکھنے والا ہے). (قران 42:11)( تفسیر ابن کثیر 7:54 کے تحت).

بمقابلہ

سلفیوں کے غلط ترجمہ کے:

برائے مہربانی اوپر نمایاں کیے گئے حصے اور نیچے نمایاں کیے گئے حصے پر غور کیجیے گا:

(اور پھر اس نے استویٰ کیا عرش پر ) اس کے معنی پر لوگوں کی “متضاد” رائے تھیں۔ تاہم ، ہم اس راستے پر چلتے ہیں جو ہمارے نیک پیش گووں نے اس حوالے سے چنا تھا۔ جیسے، مالک، الاوزاعی، الثوری، اللیٹ بن سعد، الشافعی، احمد ، اسحاق بن راہویہ، اور اسلام کے باقی علماء جو پرانے اور اب کے ہیں۔ یقینا ہم استویٰ کے ظاہری معنی کو قبول کرتے ہیں اس کے اصل ماخذ پر بحث کیے بغیر یا اس کو خلقت کی صفات سے ہم آہنگ کرنے، یا اس میں تبدیلی کرنے , یا اس کو رد کرنے بغیر (کسی بھی طرح یا کسی بھی شکل میں)۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ مطلب جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو خالق کو مخلوق سے ملاتے ہیں اس کو رد کرنا چاہیے ہے کیوںکہ کوئی شہ اس کی مثل نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر شائع کردہ سلفی دار السلام سعودی عرب۔ یہ http://www.qtafsir.com پر 7:54 کے تحت بھی تلاش کیا جا سکتا ہے)

جو سلفیوں نے رد و بدل کی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے

1- ابن کثیر نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس کے مطلب پر لوگوں کی کئی “متضاد” آراء تھیں۔ سلفی مترجم نے “متضاد” لفظ کو ترجمہ میں ڈال دیا اور وہ بھی بریکٹس میں ڈالے بغیر تاکہ عوام کو الجھن میں ڈالا جا سکے کہ اصل میں ابن کثیر نے کیا لکھا ہے۔

2- پھر انہوں نے چالاکی سے ابن کثیر پر جھوٹ باندھا یہ کہہ کر: “یقینا ہم استویٰ کے ظاہری معنی کو قبول کرتے ہیں” جبکہ ابن کثیر نے اصل میں کہا: “اسے گزرنے دو جیسے یہ آئی ہے اور اس سے کوئی کیفیت نہ نکالو” اس نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم “ظاہری معنی” کو لیتے ہیں۔ سلفیوں نے لفظ “ظاہر” کہاں سے لیا؟ یہ تحریف ہے جو سلفیوں نے کی۔ اگر اپ اگلے حصے کو غور سے پڑھیں تو اس میں واضح معلوم ہو جائے گا کہ ابن کثیر نے ” ظاہری” معنی کا رد کیا۔

3- یہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ مطلب جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو خالق کو مخلوق سے ملاتے ہیں جبکہ ابن کثیر در اصل کہہ رہے ہیں کہ: ” ظاہری/لفظی معنی” جو مجسمہ کے ذہن میں آتا ہے اس کی اللہ کے لیے نفی ہے سلفیوں نے لفظ ظاہری/لفظی کو بیچ میں سے نکال دیا تاکہ عوام کی آنکھوں میں دھواں جھونکا جا سکے کہ ظاہری مطلب ہی لینا ہے۔

کئی بار عوام ابن کثیر کا سلفی ترجمہ پڑھتی ہے اور غلط نتیجے پر پہنچ جاتی ہے۔ سلفیوں کی اسلامی کتب میں تحریف سے اللہ امت کو محفوظ رکھے

Hafidh Ibn Kathir held in high esteem by Salafis said in explanation of 7:54:

فللناس في هذا المقام مقالات كثيرة جداً ليس هذا موضع بسطها وإنما نسلك في هذا المقام مذهب السلف الصالح مالك والأوزاعي والثوري والليث بن سعد والشافعي وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وغيرهم من أئمة المسلمين قديماً وحديثاً وهو إمرارها كما جاءت من غير تكييف ولا تشبيه ولا تعطيل والظاهر المتبادر إلى أذهان المشبهين منفي عن الله لا يشبهه شيء من خلقه و{لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ

Correct Translation:

{Then He did Istawa (As it befits His Majesty) upon the Throne”} People have “TOO MANY POSITIONS ON THIS MATTER AND THIS IS NOT THE PLACE TO PRESENT THEM AT LENGTH” On this point, we follow the position of the righteous early Muslims (Salaf) i.e. Malik, al-Awza‘i, Sufyan ath-Thawri, Layth ibn Sa‘d, ash-Shaf’i, Ahmad bin Hanbal, Ishaq ibn Rahawayh, as well as others among the Imams of the Muslims, past and present—(namely) “TO LET IT PASS AS IT HAS COME WITHOUT SAYING HOW IT IS MEANT” without any resemblance (to created things), and without nullifying it (wa la ta‘til):”THE OUTWARD (LITERAL)” meaning that comes to the minds of anthropomorphists is negated of Allah[ والظاهر المتبادر إلى أذهان المشبهين منفي عن الله] for nothing created has any resemblance to Him: {“There is nothing whatsoever like unto Him, and He is the All-hearing, the All-seeing” (Qur’an 42:11)} [Tafsir Ibn Kathir Under 7:54]

VS

Corrupted translation by Salafis

Please note at highlighted parts above and the highlighted parts below in Salafi translation:

(and then He rose over (Istawa) the Throne) the people had several “CONFLICTING” opinions over its meaning. However, we follow the way that our righteous predecessors took in this regard, such as Malik, Al-Awzai, Ath-Thawri, Al-Layth bin Sad, Ash-Shafi`i, Ahmad, Ishaq bin Rahwayh and the rest of the scholars of Islam, in past and present times. “SURELY, WE ACCEPT THE APPARENT MEANING OF AL-ISTAWA” without discussing its true essence, equating it (with the attributes of the creation), or altering or denying it (in any way or form). We also believe that “THE MEANING THAT COMES” to those who equate Allah with the creation is to be rejected, for nothing is similar to Allah. [Taken from Tafsir Ibn Kathir published by Salafi Dar us Salaam, Saudi Arabia. This can also be found at http://www.qtafsir.com under 7:54]

Tampering # 1: Ibn Kathir (rah) has nowhere said that there are several “CONFLICTING” opinions over its meaning. The Salafi translators have concocted the word “conflicting” without putting it in brackets, this was done to confuse people about what Imam Ibn Kathir had actually said.

Tampering # 2: Then they cunningly attributed a lie to Ibn Kathir by saying: “Surely, we accept the apparent meaning of, Al-Istawa” …whereas Ibn Kathir is actually saying: TO LET IT PASS AS IT HAS COME WITHOUT SAYING HOW IT IS MEANT”[وهو إمرارها كما جاءت من غير تكييف], nowhere does he say that we accept the “APPARENT MEANING.” Where have the Salafis taken the word “APPARENT” from? This is an extreme corruption to the text. If you read the next part carefully you will realize that Ibn Kathir is actually rejecting the “APPARENT/DHAHIR” meaning.

Tampering # 3: This one is most important! They said: “We also believe that the meaning that comes to those who equate Allah” whereas Ibn Kathir (rah) is actually saying: “THE OUTWARD (LITERAL)” meaning that comes to the minds of anthropomorphists is negated of Allah [والظاهر المتبادر إلى أذهان المشبهين منفي عن الله]. The Salafis removed the wording “OUTWARD/DHAHIR MEANING (الظاهرالمتبادر)” from in between to put dust in eyes of people that actually apparent/dhahir meaning is to be taken (God forbid)

Many times people read Salafi version of Tafsir Ibn Kathir and come to wrong conclusions. May Allah safeguard the Ummah from forgeries to Islamic texts done by Salafis.