أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَهُمۡ يَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّكَ‌ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّعِيۡشَتَهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَـتَّخِذَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِيًّا‌ ؕ وَرَحۡمَتُ رَبِّكَ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡنَ ۞

ترجمہ:

کیا یہ (کفار) آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ ہم نے ان کی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی تقسیم کی ہے اور ہم نے دنیاوی روزی میں بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے کہ انجام کار یہ ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں اور آپ کے رب کی رحمت اس مال سے بہت بہتر ہے جس کو یہ جمع کررہے ہیں

تفسیر:

الزخرف : ٣٢ میں فرمایا : ” کیا یہ (کفار) آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ ہم نے ان کی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی تقسیم کی ہے اور ہم نے دنیاوی روزی میں بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے کہ انجام کار یہ ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں اور آپ کے رب کی رحمت اس مال سے بہت بہتر ہے جس کو یہ جمع کررہے ہیں “

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا تو عرب نے اس کا انکار کیا، ان میں سے بعض نے کہا : اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے کہ اس کا رسول (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثل بشر ہو، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

اکان للناس عجبا ان او حینا الی رجل منھم ان انذر الناس (یونس :2)

کیا لوگوں کو اس پر تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک شخص پر وحی کی کہ آپ تمام لوگوں کو ڈرائیے۔

اور فرمایا :

وما ارسلنا من قبلک الا رجا لا نوحی الیھم فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (النحل :43)

ہم نے آپ سے پہلے بھی صرف مودوں کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے دریافت کرلو

یعنی اہل کتاب سے دریافت کرلو کہ آیا تمہارے پاس بشر رسول بن کر آئے تھے یا فرشتے، پس اگر تمہارے پاس فرشتے آئے تھے خواہ وہ بشر ہوں تو تم کیوں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہو اور نیز فرمایا :

وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم من اھل القری۔ (یوسف :109)

اور ہم نے آپ سے پہلے بستیوں والوں میں جس قدر رسول بھیجے وہ صرف مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔

یعنی وہ سب رسول بستیوں والوں میں سے تھے، ان میں سے کوئی رسول آسمان والوں میں سے نہ تھا جیسا کہ تمہارا زعم ہے کہ رسول کو فرشتہ ہونا چاہیے، جب ان کے رد میں یہ متواتر آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے یہ اعتراض کیا کہا گر رسول کو بسر ہی ہونا ہے تو (سیدنا) محمد (صلی علیہ وسلم) کے علاوہ دوسرے لوگ رسالت کے زیادہ مستحق ہیں، انہوں نے کہا :

لو لا نزل ھذالقران علی رجل من القریتین عظیم (الزخرف :31)

یہ قرآن ان دو شہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدم پر کیوں نہ نازل ہوا

ان کی مراد یہ تھی کہ (سیدنا) محمد (صلی علیہ وسلم) سے زیادہ اشرف مکہ کا ولید بن مغیرہ مخزومی ہے اور طائف کا مسعود بن عمرو ثقفی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو رد کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی : کیا آپ کے رب کی رحمت یعنی اس کی رسالت کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ بلکہ اپنی رحمت اور کرامت کو ہم ہی تقسیم کرتے ہیں، پس ہم جس کو چاہتے ہیں رسول بنادیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں صدیق بنادیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں خلیل بنادیتے ہیں، جس طرح ہم دنیاوی زندگی میں جس کو چاہتے جتنی چاہتے ہیں اس کو اتنی روزی عطا فرماتے ہیں اور ہم نے دنیاوی روزی میں بعض کو بعض سے زیادہ بلند درجہ عطا فرمایا ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٨٤٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

دنیاوی زندگی کی معیشت میں بعض فاضل ہیں اور بعض مفضول ہیں، بعض رئیس ہیں بعض مرئو وس ہیں، بعض غنی ہیں اور بعض فقیر ہیں، بعض حکام ہیں اور بعض عوام ہیں۔

نیز فرمایا : ” اور آپ کے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جس کو یہ جمع کررہے ہیں “ ایک تفسیر یہ ہے کہ اس رحمت سے مراد نبوت ہے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس رحمت سے مراد جنت ہے اور تیسری تفسیر یہ ہے کہ کہ تمام فرائض کی ادائیگی بکثرت نوافل پڑھنے سے بہتر ہے، چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بندوں کو جو اجر عطا فرمائے وہ اس سے بہتر ہے جو بندے اس سے اپنے اعمال کی جزاء کو طلب کریں۔

کفار مکہ نے کہا یہ تھا کہ قرآن کسی عظیم آدمی پر نازل ہونا چاہیے تھا، ان کا یہ کہنا اس لیے غلط اور باطل تھا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عظیم آدمی وہ ہوتا ہے کہ جس کے پاس مال اور دولت زیادہ ہو اور جس کے ماتحت زیادہ آدمی ہوں اور جس کے پاس اسلحہ اور ہتھیار بہت ہوں، ان کا یہ کہنا غلط اور باطل تھا، ان چیزوں سے کوئی شخص بڑا آدمی نہیں بنتا، بڑا آدمی اور عظیم انسان وہ شخص ہوتا ہے جس کا کردار عظیم ہو، جس کے اخلاق بلند ہوں، جس کو دنیا صادق اور امین کے نام سے پہچانتی ہو، جو یتیموں اور بیوائوں کی پرورش کرتا ہو، جو کمزوروں کا سہارا ہو، جو پاک باز اور عفت مآب ہو، جو مہمانوں کی تکریم کرتا ہو، مظلموں کی داد رسی کرتا ہو، جو جان کے دشمنوں پر قابو پانے کے بعد ان کو معاف کردیتا ہو، جو حق بات کہتا ہو، جو اس قدر بہادر ہو کو حق بات کے خلاف بڑی سے بڑی طاقت اس کو جھکا نہ سکتی ہو اور مکہ اور طائف کی دو پہاڑیوں کے درمیان سیدنا محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا ان صفات کا حامل اور کوئی نہیں تھا، ریگ زار عرب کا ذرہ ذرہ ان پر شاہد عادل ہے کہ ایسا عظیم انسان اور اتنا بڑا آدمی (سیدنا) محمد (صلی علیہ وسلم) کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا تو پھر قرآن مجید آپ پر ہی نازل ہونا تھا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 32