أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوَمَنۡ يُّنَشَّؤُا فِى الۡحِلۡيَةِ وَهُوَ فِى الۡخِصَامِ غَيۡرُ مُبِيۡنٍ ۞

ترجمہ:

اور کیا وہ جو زیورات میں پلتی ہو اور دوران بحث اپنا موقف واضح نہ کرسکے (وہ لڑکی اللہ کی اولاد ہوسکتی ہے ؟ )

تفسیر:

الزخرف : ١٨ میں فرمایا : ” اور کیا وہ جو زیورات میں پلتی ہو اور دوران بحث اپنا موقف واضح نہ کرسکے (وہ لڑکی اللہ کی اولاد ہوسکتی ہے ؟ ) “

عورت کے ناقص الخلقت ہونے پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہیں :

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدالاضحی یا عید الفطر پڑھانے کے لیے عیدگاہ میں گئے، آپ کا عورتوں کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا : اے عورتوں کے گروہ ! صدقہ کیا کرو، کیونکہ مجھے تمہاری بڑی تعداد دوزخ میں دکھائی گئی ہے، انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! کس وجہ سے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے تم سے زیادہ کوئی ناقص عقل اور ناقص دین ایسی نہیں دیکھی جو کسی ہوشیار مرد حاذق کی عقل کو سلب کرنے والی ہو، انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! ہمارے دین کا نقصان کیا ہے اور ہماری عقل کا نقصان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیا یہ بات نہیں ہے کہ عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف کی مثل ہے، انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : یہ عورت کی عقل کا نقصان اور اس کی کمی ہے اور کیا یہ بات نہیں ہے کہ جب عورت کی ماہواری کے ایام ہوتے ہیں تو وہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے، انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : یہ اس کے دین کا نقصان اور اس کی کمی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٠۔ ٧٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٦٧٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٥٧٩۔ ١٥٧٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٠٣۔ ١٢٨٨، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٧٣٩)

الزخرف : ١٨ میں فرمایا ہے کہ عورت اپنے مؤقف کو وضاحت سے نہیں بیان کرسکتی، حالانکہ بعض عورتیں بہت ذہین ہوتی ہیں اور بہت فصاحت اور بلاغت سے اپنا مؤقف بیان کرتی ہیں اور بحث مباحثہ میں غالب رہتی ہیں، احنف نے کہا : میں نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کے خطبات سنے ہیں لیکن اللہ کی قسم ! میں نے حضرت عائشہ (رض) سے زیادہ کسی کو بلیغ نہیں پایا اور حضرت معاویہ (رض) نے فرمایا : گفتگو کے جس دروازہ کو حضرت عائشہ نے بند کردیا ہو اس دروازہ کو ان کے سوا اور کوئی نہیں کھول سکتا اور جب ایک مجلس میں حضرت عائشہ نے حضرت زینب کو لاجواب کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٨١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٤٤٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ تھی کہ حضرت عائشہ (رض) بہت ذہین ہیں اور ان کی فصاحت و بلاغت بہت قوی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے تمام عورتوں کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ اپنا مؤقف وضاحت سے نہیں بیان کرسکتیں، بلکہ یہ حکم اکثر عورتوں کے متعلق ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 18