أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

بَلۡ قَالُـوۡۤا اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰٓى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓى اٰثٰرِهِمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

نہیں ! بلکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان ہی کے قدموں کے نشانات پر چل کر ہدایت پانے والے ہیں

تفسیر:

امت کے معنی

الزخرف : ٢٢ میں فرمایا : نہیں ! بلکہ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان ہی کے قدموں کے نشانات پر چل کر ہدایت پانے والے ہیں “

امام راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

امت ہر اس گروہ اور جماعت کو کہتے ہیں جو کسی چیز میں مجتمع ہو اور اس کا کوئی جامع ہو، خواہ اس کا جامع دین واحد ہو یا زمان واحد ہو یا مکان واحدہو، خواہ کسی چیز نے اس کو تسخیر اً اور جبراً جمع کیا ہو یا اختیاراً جمع کیا ہو۔ تسخیراً جمع کرنے کی مثال یہ آیت ہے :۔

وما من دآبۃ فی الارض ولا طئیر یطیر بجنا حیہ الا امم امثالکم۔ (الانعام :38)

زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اپنے پروں سے اڑنے والا ہر پرندہ تمہاری مثل ایک امت (گروہ) ہے۔

یعنی ان میں سے ہر گروہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص طبیعت میں مسخر کیا ہوا ہے، جیسے مکڑیوں کا گروہ بالطبع جالا بنانے والا ہے، یا بالطبع خوراک کا ذخیرہ بنانے والا ہے جیسے چیونٹیاں، یا گھونسلا بنانے والا ہے جیسے چڑیا اور اس طرح کے اور پرندے یا پھلوں اور پھولوں کا رس چوس کر ایک چھتے میں جمع کرنے والا ہے جیسے شہد کی مکھیاں۔

اور یا وہ گروہ اپنے اختیار سے ایک نظریہ پر قائم ہونے والا ہو، اس کی مثال یہ آیت ہے :

کان الناس امۃ واحدۃ۔ (البقرہ : 213) یعنی سب لوگوں کا ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ اور نظریہ تھا، وہ سب کفر اور گمراہی میں متفق اور مجتمع تھے، اسی طرح یہ آیت ہے :

ولو شاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ۔ (ھود :118)

اور اگر آپ کا رب چاہتا تو سب لوگوں کی ایک امت بنا دیتا ۔

یعنی سب لوگوں کو اللہ پر ایمان لانے میں مجتمع اور متحد کردیتا۔

اور زمانے اور مدت کی مثال یہ آیت ہے :

واذکر بعد امۃ۔ (یوسف :45)

رہا ہونے والے قیدی کو ایک مدت کے بعد یاد آیا۔ (المفردات ج ١ ص ٢٨، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 22