أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

بَلۡ مَتَّعۡتُ هٰٓؤُلَاۤءِ وَاٰبَآءَهُمۡ حَتّٰى جَآءَهُمُ الۡحَقُّ وَرَسُوۡلٌ مُّبِيۡنٌ ۞

ترجمہ:

بلکہ میں نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو (دنیاوی) فائدہ پہنچایا حتیٰ کہ ان کے پاس حق آگیا اور صاف صاف بیان کرنے والا رسول

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

بلکہ میں نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو (دنیاوی) فائدہ پہنچایا حتیٰ کہ ان کے پاس حق آگیا اور صاف صاف بیان کرنے والا رسول اور جب ان کے پاس حق پہنچ گیا تو انہوں نے کہا : یہ جادو ہے اور ہم اس کا کفر کرنے والے ہیں اور انہوں نے کہا : یہ قرآن ان دوشہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل ہوا کیا یہ (کفار) آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ ہم نے ان کی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی تقسیم کی ہے اور ہم نے دنیاوی روزی میں بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے کہ انجام کار یہ ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں اور آپ کے رب کی رحمت اس مال سے بہت بہتر ہے جس کو یہ جمع کررہے ہیں (الزخرف :29-32)

اہل مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور ان کا کفر اور استہزاء

الزخرف : ٢٩ میں کلام سابق سے اضراب ہے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ توقع پوری نہیں ہوئی کہ ان کی تمام اولاد عقیدہ توحید اور اسلام پر قائم رہے، اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جو اہل مکہ تھے وہ نسل ابراہیم سے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیاوی نعمتیں اور آسائشیں دیں، وہ ان نعمتوں اور ان کی لذتوں میں ڈوب کر عقیدہ توحید اور اسلام کے احکام سے غافل ہوگئے حتیٰ کہ جب ان لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کا برحق کلام یعنی قرآن مجید آگیا اور قرآن مجید کے احکام کو صاف صاف بیان کرنے والا رسول آگیا جس کی رسالت اس کے پیش کردہ معجزات کی وجہ سے بالکل ظاہر تھی اور جو اللہ تعالیٰ کی توحید کو دلائل سے بیان کرنے والا تھا تو …

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 29