سوال : بے بی ٹیسٹ ٹیوب پر عمل کرنا کیسا ہے کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ؟

جواب : صورتِ مسؤلہ میں امام علامہ مردادی حنبلی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ والمسالۃ الثانیہ أن یکون مجبوباًبأن یقطع ذکرہ وتبقی انثباہ فقال جماھیر الأصحاب یلحقہ نسبہ وھو المذھب وھو ظاہر کلامہ فی’’الوجیز‘‘وقدمہ فی الفروع الی قولہ ولو کان عنّیناًلم یلحقہ نسبہ والصحیح من المذھب أنہ یلحقہ وھو ظاہر کلام أکثر الأصحاب۔(الانصاف جلد 9ص262)

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محبوب الذکر ہو بایں طور کہ اس کا آلہ کٹاہوا ہو اوراس کے خصیتیں باقی ہوں توجمہور اصحاب کا قول یہ ہے کہ اس کا نسب ثابت ہوجائے گا ’’وجیز‘‘ میں ہے کہ یہی مذہب اورفروع میں اسی کو مقدّم کیا ہے اوراگر کوئی شخص نامرد ہے تواس کا نسب ثابت نہیں ہوگا اورصحیح مذہب یہ ہے کہ اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ لاحق کردیا جائے گا اوریہی جمہور اصحاب کا مؤقف ہے اورایسا ہی علامہ شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمہ نے مبسوط جلد 5صفحہ نمبر104پر اورعلامہ ابن عابدین نے جلد 2صفحہ 807پر لکھا جس سے واضح ہوا کہ وطی کے سوا بھی استقرار حمل کے طریقے جائز ہیں ان میں بے بی ٹیسٹ ٹیوب ہوتویہ بھی جائز ہے مگر کسی صحیح کے وقت اورکوئی مسلم مستند معالج تشخیص کرے اور نطفہ کا پانی غیر مرد کا نہ ہو نیز وہ پانی منتقل کرنے والا شخص مرد نہ ہو یعنی عورت کے رحم میں ٹیسٹ بے بی کا عمل عورت کرے اورمرد سے لیتے ہوئے مرد کرے۔