دلیپ کمار کی موت
مُحافظ
۔
مشہور بالی ووڈ فلمی ایکٹر دلیپ کمار کی موت کے بعد اُن کی اور اُن بیوی مدھوبالا کی محبت ،وفاداری، خلوص اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے ہر طرف چرچے ہیں ۔
پرنٹ میڈیا سے لےکر الیکٹرانک میڈیا تک ،پاکستانی چینلز سے لےکر وائیس آف امریکہ اور بی بی سی نیوز تک ہر چینل دلیپ کمار اور مدھو بالا کی محبت کے قصیدے پڑھ رہا ہے ۔
۔
یوسف خان سے دلیپ کمار بننے والے اور سائرہ بانو سے مدھو بالا بننے والی عورت کے محبت وعشق اور رشتے میں خلوص کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اِس طرح چرچا ہونا ہمارے اسکولی مسلمانوں کے دین وایمان کےلئے خطرناک بات ہے ۔اسکولی بچے ایسوں سے متاثر ہوسکتے ہیں ۔
اِس صورتحال میں اہلِ علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری زندگی سے اب تک کے ایسے واقعات جو میاں بیوی کے رشتہ کے خلوص اور نازک مواقع پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے عنوان پر مشتمل ہوں اُنہیں احاطہ تحریر میں لاکر اور ویڈیوز کی صورت دیکر پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر نشر کردیں ۔تاکہ اسکولی بچوں کو صحابہ کرام وصحابیات، اولیائے کرام اور اُن کی خوش بخت نیک بیویوں کے واقعات کثرت سے پڑھنے کو ملیں اور تمام اسکولی بچے دلیپ کمار اور مدھوبالا کی سحر سے چھٹکارا پائیں ۔
۔
اِس سلسلے کے کچھ واقعات میں اپنے کالمز میں مناسب وقت پر بیان کروں گا ۔ان شاء الله
۔
دلیپ کمار کا جنازہ پڑھنے والوں اور اُس کے لئے بخشش کی دعائیں کرنے والے تمام مسلمانوں سے “الدین النصیحۃ” کے تحت پیار کی زبان ایک بات کہنا چاہوں گا امید ہے” سنو سب کی ” کا نعرہ لگانے والے آج ہماری بات بھی سُنیں گے ۔
۔
اے دلیپ کمار کےلئے بخشش کی دعا کرنے والو ! مذہبی تعلیم سے دوری ،مادی دنیا کی چکاچوند روشنیوں میں گُم سُم ہوکر جو لوگ شہرت وناموری کمالیتے ہیں اُن کے لئے دین ومذہب کی حیثیت ثانوی بن جاتی ہے ۔وہ لوگ خود کو مذھب اور مذھبی قوانین سے آزاد سمجھتے ہیں ۔ایسے لوگ چاہے وہ یوسف خان سے دلیپ کمار بننے والے فلمی ایکٹر ہوں یا عبدالستار ایدھی جیسے سماجی کارکن ہوں اِن تمام لوگوں کے نزدیک دین کی وہی تشریح صحیح ہے جو وہ خود بزعم خویش کہیں۔
۔
مادہ پرستی کا دور ہے ۔لوگ دین سے ویسے ہی دور ہیں ایسے میں اگر کوئی مفتئ اسلام دلیپ کمار یا ایدھی جیسے لوگوں کو فتوے زبان میں سمجھانا بھی چاہے تو یہ لوگ ضد میں آجاتے ہیں بجائے اپنی اصلاح کے دینی اقدار کے متعلق اول فول بولنا شروع کردیتے ہیں ۔
۔
اے دلیپ کے چاہنے والو! اِس پُرْفِتَنْ دور میں دلیپ کمار جیسے لوگوں کےلئے فتوے کی زبان میں سمجھانا اِس لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ شرعی فتویٰ کی وجہ سے آپ فالوورز کے نازک آبگینے ٹوٹ جائیں گے اور آپ لوگ علمائے دین کو برا بھلا بولوگے ۔
۔
ہمارے لئے بھلائی اِسی میں ہے کہ دلیپ کمار اور ایدھی جیسے لوگوں کو انفرادی طور پر سمجھاکر دینی فریضہ ادا کریں ۔ انفرادی طور پر سمجھانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سانپ بھی مرے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔وہ بھی سمجھ جائیں اور اُن کے فالورز بھی دین وعلمائے دین سے بدظن نہ ہوں ۔
۔
ممکنہ سوال
مذکورہ کالم پڑھنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ دلیپ کمار یا ایدھی کا کوئی فالوور ہم سے پوچھے کہ میرے ممدوح کیسے غلط تھے ؟
جواب ۔
قرآن اور حدیث کی تعلیم کی برکات سے عقلی طور پر ایک دلیل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ دلیپ کمار اور ایدھی جیسے لوگ کیسے غلط ہیں۔
۔
دلیپ کمار اور ایدھی کی غلطی کو سمجھنا جمھوری دور میں بہت آسان ہے ۔جمھوری ملکوں کا آئین کا کہتا ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی جمھوری ملک میں رہنا چاہتا ہے اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس ملک کے آئین وقانون کو تسلیم کرے بصورتِ دیگر وہ غدار کہلائے گا ۔۔
۔
کوئ شخص چاہے کتنی ہی بڑی سماجی شخصیت ہو، خدمتِ خلق کے کام کرتا ہو، لوگ اُس کے فلاحی کاموں کو اپریشیٹ کرتے ہیں۔ اُس شخص پر بھی اُس ملک کے آئین وقانون کو تسلیم کرنا ضروری ہے ۔
ایسے ہی جو شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہے، اسلامی نام رکھتا ہے لوگ کلمہ پڑھنے کی وجہ سے اُسے مسلمان سمجھتے ہیں تو اُس کلمہ گو شخص پر بھی لازم ہے کہ وہ اسلام کا آئین وقانون تسلیم کرے اُسی کے مطابق زندگی گزارے ۔
۔
جیسے کسی جمھوری ملک میں رہتے ہوئے کسی جرم کا مرتکب ہونا برا ہے ایسی ہی کلمہ پڑھکر کسی شرعی حد کو پار کرنا بھی شریعتِ اسلام کی نظر میں جرم ہے ۔
۔
جمھوری ملکوں میں مخصوص مقامات پر لکھاہوتا ہے نوانٹری، وہاں پر داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص وہاں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کا سر گولی سے اُڑا دینے کی اجازت ہوتی ہے بلاتشبیہ یوں سمجھیں کہ کلمہ گو شخص کےلئے اسلام نے حدود (باؤنڈریز) مکرر کی ہیں ۔وہ جب تک اُن باؤنڈریز کے اندر رہتا ہے اُس کا دین ایمان سلامت رہتا ہے اور جب کوئ شخص اُن باؤنڈریز کو کراس کرتا ہے وہ اسلام کے حکم سے نکل جاتا ہے۔
قارئینِ محترم! ایدھی جیسے لوگ ہوں یا دلیپ کمار جیسے مذھب آزاد،،، ایسے تمام لوگ زندگی میں کئ بار اپنے فعل یعنی کردار اور قول یعنی باتوں کے ذریعے اسلامی حدود کو کراس کرچکے ہوتے ہیں اُن کے جنازے پڑھنا اُن کی لئے مغفرت کی دعائیں کرنا ایسے ہی ہے جیسے خود کو خود ہی آگ میں دھکیلنا ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم دلیپ کمار اور ایدھی یا اِن جیسے دیگر لوگوں کے معاملات اللہ ورسول کے سپرد کردیں ۔ اُن کے جنازے پڑھنے، مغفرت کی دعائیں کرنے سے پہلے کسی مفتئ اسلام سے ضرور بالضرور پوچھیں ۔
۔
دنیا کے کسی جمھوری ملک کے آئین کو توڑنا جب جُرم کہلاتا ہے تو اسلامی آئین جو کہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنایا ہوا اِلٰہی دستور ہوتا ہے اُسے توڑنا جرم کیوں نہیں کہلائے گا؟
جو اِس آئین کو توڑے گا ہم جیسے محافظ اُسکی نشاندہی ضرور کریں گے ۔۔
✍️ ابوحاتم
11/07/2021/