قٰلَ اَوَلَوۡ جِئۡتُكُمۡ بِاَهۡدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمۡ عَلَيۡهِ اٰبَآءَكُمۡ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡـتُمۡ بِهٖ كٰفِرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 24
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قٰلَ اَوَلَوۡ جِئۡتُكُمۡ بِاَهۡدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمۡ عَلَيۡهِ اٰبَآءَكُمۡ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡـتُمۡ بِهٖ كٰفِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
(اس نبی نے) کہا : خواہ میں اس کی بہ نسبت ہدایت دنے واتلا دین لے کر آیا ہوں جس دین پر تم اپنے باپ دادا کو پایا ہے، انہوں نے کہا : جس دین کو دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا کفر کرنے والے ہیں
تفسیر:
الزخرف : ٢٥۔ ٢٤ میں فرمایا : ”(اس نبی نے) کہا : خواہ میں اس کی بہ نسبت ہدایت دنے واتلا دین لے کر آیا ہوں جس دین پر تم اپنے باپ دادا کو پایا ہے، انہوں نے کہا : جس دین کو دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا کفر کرنے والے ہیں پھر ہم نے ان سے انتقام لیا، سودیکھئے تکذیب کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا “
” اھدی “ کے معنی میں مترجمین کی آراء
اس آیت میں ” اھدی “ کا لفظ ہے اور یہ اسم تفصیل کا صیغہ ہے، اس کا معنی ہے : زیادہ ہدایت دینے والا، اسی لیے مترجمین نے اس کا معنی اسم تفضیل کے اعتبار سے کیا ہے۔
شیخ محمود حسن دیوبندی متوفی ١٣٣٩ ھ اس آیت کا ترجمہ میں لکھتے ہیں :
وہ بولا اور جو میں لادوں تم کو اس سے زیادہ سوجھ کی راہ جس پر پایا تم نے اپنے باپ دادوں کو۔
اور شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ اس آیت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
ان کے پیغمبر نے کہا کہ کیا (رسم آباء ہی کا اتباع کیے جائو گے) اگرچہ میں اس سے اچھا مقصود پر پہنچا دینے والا طریقہ تمہارے پاس لایا ہوں کہ جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔
اور ہم نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے اور اسم تفضیل کو مجازاً صفت مشبہ پر محمول کیا ہے :
”(اس نبی نے) کہا : خواہ میں اس کی بہ نسبت ہدایت دنے واتلا دین لے کر آیا ہوں جس دین پر تم اپنے باپ دادا کو پایا ہے “۔
تھانوی صاحب اور شیخ محمود حسن کے ترجموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافروں کے آبائواجداد کا دین بھی ہدایت دینے والا تھا لیکن پیغمبروں کا دین زیادہ ہدایت دینے والا ہے، جب کہ ہمارے ترجمہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہدایت دینے والا وہی دین ہے جس کو انبیاء (علیہم السلام) نے پیش کیا ہے اور کافروں کے دین میں ہدایت نہیں ہے۔
دوسری آیت میں فرمایا ہے : ” ہم نے ان سے انتقام لیا “۔ یعنی ان پر قحط مسلط کیا اور ان پر عبرت ناک عذاب نازل کیا جس سے ان کافروں کو کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا اور فرمایا : ” سو دیکھئے ! تکذیب کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا “۔
تکذیب سے مراد ہے : رسولوں کی تکذیب، یعنی جن کافروں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور ان کے لائے ہوئے دین کا مذاق اڑایا تھا اور اس کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا، ان پر کیسا عبرت ناک عذاب آیا۔
تقلید کی تحقیق
ان آیات میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے، تقلید کی تعریف ہے : کسی دوسرے شخص کے قول کو بلادلیل قبول کرنا، یہ تقلید احکام فرعیہ اور عملیات میں جائز ہے اور اصول دین اور اعتقادات میں جائز نہیں ہے بلکہ اصول دین اور اعتقادات میں غور و فکر کرنا اور دلائل سے کام لینا ضروری ہے، البتہ فقہاء احناف اور غیر مقلدین دونوں کے نزدیک مقلد کا ایمان صحیح ہے، مثلاً مقلد کا ایمان ہے کہ یہ جہان ممکن اور حادث ہے اور اللہ تعالیٰ واجب الوجود، قدیم اور واحد ہے اور تمام رسول صادق ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے جو پیغام لے کر آئے وہ پیغام برحق ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیہاتیوں کا، بچوں کا، عورتوں کا اور غلاموں اور باندیوں کا ایمان قبول فرمایا اور ان کو دلیل کی تعلیم نہیں دی اور نہ ان سے اللہ کے واحد ہونے کی یا اپنے رسول ہونے کی دلیل پوچھی، حدیث میں ہے :
حضرت عمر بن الحکم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میری ایک باندی میری بکریاں چراتی تھی، میں اس کے پاس گیا تو میری بکریوں میں سے ایک بکری کم تھی، میں نے اس سے اس کے متعلق سوال کیا، اس نے کہا : اس بکری کو بھیڑیا کھا گیا، مجھے اس کا افسوس ہوا اور میں بھی بنوآدم سے ہوں، میں نے اس کو ایک تھپڑ مارا، مجھ سر ایک غلام کو آزاد کرنا ہے، کیا میں اس باندی کو آزاد کردوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس باندی سے پوچھا : اللہ کہا ہے ؟ اس نے کہا : آسمان میں، آپ نے پوچھا : میں کون ہوں ؟ اس نے کہا : آپ رسول اللہ ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو آزاد کردو۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٥٣٤، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٢١ ھ)
عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک سیاہ فام باندی لے کر آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ ! مجھ پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا لازم ہے، آپ دیکھیں، اگر یہ باندی مومن ہے تو میں اس کو آزاد کردوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس باندی سے کہا : کیا تم یہ شہادت دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : کیا تم شہادت دیتی ہو کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا، کیا تم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا یقین ہے، اس نے کہا : جی ہاں ! تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو آزاد کردو۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٥٣٥، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
ان دونوں حدیثوں میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس باندی کا ایمان قبول فرمایا اور اس سے اللہ اور اس کے رسول کے ماننے اور مرنے کے بعد اٹھنے کے ایمان پر کسی دلیل کو طلب نہیں فرمایا۔
البتہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر مقلد اپنے عقائد پر غور وفکر کرکے ان پر دلیل قائم نہ کرسکے تو وہ گنہگار ہوگا، کیونکہ اس پر غور و فکر کرنا واجب ہے، اسے چاہے کہ وہ اثر سے موثر اور مصنوع سے صائع پر استدلال کرے اور جو شخص مسلمانوں کے شہر میں پیدا ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر سبحان اللہ کہا، وہ تقلید کی حد سے نکل گیا اور وہ دلیل اور حجت سے اللہ پر ایمان لانے والا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 24
[…] تفسیر […]