لِتَسۡتَوٗا عَلٰى ظُهُوۡرِهٖ ثُمَّ تَذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ رَبِّكُمۡ اِذَا اسۡتَوَيۡتُمۡ عَلَيۡهِ وَتَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقۡرِنِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 13
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لِتَسۡتَوٗا عَلٰى ظُهُوۡرِهٖ ثُمَّ تَذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ رَبِّكُمۡ اِذَا اسۡتَوَيۡتُمۡ عَلَيۡهِ وَتَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقۡرِنِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر سوار ہوسکو، پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب تم اس پر سیدھے بیٹھ جائو اور تم یہ کہو کہ وہ ذات ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جس نے اس سواری کو ہماری قدرت میں کردیا اور ہم از خود اس پر قادر ہونے والے نہیں تھے
تفسیر:
الزخرف : ١٤۔ ١٣ میں فرمایا :” تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر سوار ہوسکو، پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب تم اس پر سیدھے بیٹھ جائو اور تم یہ کہو کہ وہ ذات ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جس نے اس سواری کو ہماری قدرت میں کردیا اور ہم از خود اس پر قادر ہونے والے نہیں تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹنے والے ہیں “
سفر پر روانہ ہونے کے وقت سواری پر بیٹھنے کے بعد کی دعا
اس آیت میں فرمایا ہے : پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو، نعمت کو یاد کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس نعمت کا اپنے دل میں ذکر کرو اور اس پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدہ کے لیے سمندر کو پیدا کیا اور ہوائوں کو پیدا کیا اور ان چیزوں کو پیدا کیا جن سے تم کشتیاں اور جہاز بناتے ہو اور تمہارے دعاغ میں ایسی سوچ اور فکر رکھی جس سے وہ جہاز بناسکے اور ان تمام امور پر غور کرنے کے بعد ہر ایک کے دل میں بےاختیار یہ داعیہ اور باعثہ پیدا ہو کہ ایسے عظیم محسن کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔
اور سواری پر سوار ہونے کے بعد یہ کہو کہ وہ ذات ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جس نے اس سواری کو ہماری قدرت میں کردیا اور ہم از خود اس پر قادر ہونے والے نہیں تھے۔
عن علی ازدی ان ابن عمر علمھم (رض) ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کان اذ استوی علی بعیرہ خارجا الی سفر کبر ثلاتاثم قال سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون اللھم نسئلک فی سفرنا ھذا البروالتقوی ومن العمل ماترضی اللھم ھون علینا سفرنا ھذا واطوعنا بعدہ اللھم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاھل اللھم انی اعوذبک من و عشاء السفر وکباۃ المنظر وسوء المنقلب فی المال والاھل واذارجع قالھن وزاد فیھن ائیون تائبون عابدون لربنا حامدون۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٤٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٥٩٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٤٧ )
علی ازدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے انہیں بتلایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کہیں سفر پر جانے کے لیے اونٹ پر سوار ہوجاتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے اور پھر یہ دعا پڑھتے : (ترجمہ) سبحان ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کردیا، ہم اس کو مسخر کرنے والے نہ تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیز گاری کا سوال کرتے ہیں اور ان کاموں کا سوال کرتے ہیں جن سے تو راضی ہو۔ اے اللہ ! ہمارے لیے اس سفر کو آسان کردے اور اس کی مسافت تہہ کردے، اے اللہ ! اس سفر میں تو ہی ہمارا رفیق ہے اور ہمارے گھر میں نگہبان ہے۔ اے اللہ ! میں سفر کی تکلیفوں سے، رنج وغم سے اور اپنے اہل اور مال کے برے انجام سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور جب آپ سفر سے لوٹ کر آتے تب بھی یہ دعا پڑھتے اور ان میں ان کلمات کا اضافہ کرتے : ہم واپس آنے والے ہیں، اللہ سے توبہ کرنے والے ہیں، اس کی عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔
اس دعا کے بعد قرآن مجید میں مذکور اس دعا کو بھی پڑھے :
رب انزلنی منزلا مبرکائو انت خیر المنزلین (المؤمنین :29)
اے میرے رب ! مجھے برکت والی جگہ اتارنا اور تو بہترین اتارنے والا ہے
سفر سے واپسی کی دعا
عن عبداللہ قال کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذا قفل من الجیوش اولسرابا او الحج والعمرۃ اذا وفی علی ثنیۃ او فد فد کبر ثلثا ثم قال لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔ ائبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون صدق اللہ وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ (جامع المسانید والسنن مسندابن عمر رقم الحدیث : ٢١٤١ )
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی لشکر، جہاد، حج یا عمرہ سے واپس آتے اور کسی ٹیلے یا ہموار میدان پر پہنچتے تو تین بار اللہ اکبر کہنے کے بعد فرماتے : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی حکومت ہے اور اسی کے لیے ستائش ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم لوٹ کر آنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا تمام لشکروں کو شکست دی۔
جمال کا معنی اور مویشیوں کا جمال
ہر چند کہ سائنس کی تیز رقتار ترقی کی وجہ سے اب طیاروں، ٹرینوں، بسوں اور کاروں کے ذریعہ سفر ہوتا ہے اور پہلے زمانہ کی طرف اب اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں پر سفر کرنا متروک ہوگیا ہے لیکن اب بھی دیہاتوں میں، دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں اور ریگستانوں میں ان مویشیوں پر سفر کیا جاتا ہے، اس لیے ہم مویشیوں کے بعض احکام بیان کررہے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے النحل : ٩ میں فرمایا : ان مویشیوں میں تمہارے لیے جمال ہے “ حدیث میں ہے : اللہ جمیل اور جمال سے محبت کرتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١) علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ بہت زیادہ حسن کو جمال کہتے ہیں اور جمال کی دو قسمیں ہیں : ایک جمال وہ ہے جو اس کے نفس یا اس کے بدن یا اس کے افعال میں ہو اور جمال کی دوسری قسم وہ حسن ہے جس کو وہ دوسروں تک پہنچائے، حدیث میں جو ارشاد ہے : اللہ جمیل ہے اور جمال سے محبت کرتا ہے، اس میں بھی اس امر پر متنبہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوسروں تک خیر اور خوبی کو پہنچاتا ہے اور ان ہی لوگوں سے محبت کرتا ہے جو دوسرے لوگوں تک نیکیوں اور اچھائیوں کو پہنچائیں۔ (الفردات ج ١ ص ١٢٧۔ طبع مکہ مکرمہ)
علامہ قرطبی نے لکھا ہے : جس چیز سے حسن اور زیبائش حاصل ہو وہ جمال ہے اور جمال حسن کو کہتے ہیں، ہمارے علماء نے کہا ہے کہ جمال جسمانی بناوٹ اور صورت میں بھی ہوتا ہے اور اخلاق باطنہ اور افعال میں بھی ہوتا ہے، شکل و صورت کا جمال وہ ہے جس کو آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے اور دل میں وہ صورت نقش ہوجاتی ہے اور اخلاق باطنہ کا جمال یہ ہے کہ انسان کی صفات خوبصورت ہوں، اس میں علم اور حکمت ہو، عدل اور عفت (پاک دامنی) ہو، وہ غصہ ضبط کرتا ہو اور ہر شخص کے ساتھ اچھائی کرتا ہو اور افعال کا جمال یہ ہے کہ اس کے افعال سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہو اور وہ لوگوں کی مصلحتیں تلاش کرنے میں کوشاں رہتا ہو اور ان سے ضرر اور نقصان کو دور کرنے کے درپے رہتا ہو۔
مویشیوں کا جمال یہ ہے کہ ان کی جسمانی بناوٹ اور ان کی شکل و صورت دیکھنے میں اچھی لگتی ہو اور مویشیوں کی تعداد کا زیادہ ہونا بھی انے جمال میں داخل ہے کہ لوگ دیکھ کر یہ کہیں کہ یہ فلاں کے مویشی ہیں، کیونکہ جب مویشی زیادہ تعداد میں اکھٹے ہو کر چلتے ہیں تو اچھے لگتے ہیں، اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور ان میں تمہارے لیے حسن اور زیبائش ہے جب تم شام کو انہیں چرا کر واپس لاتے ہو اور جب صبح کو انہیں چراگاہ میں چھوڑتے ہو۔ “
بکریوں، گایوں اور اونٹوں کے مقاصد اور وظائف خلقت
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور وہ چوپائے تمہارا سامان لاد کر اس شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر مشقت کے خود نہیں پہنچ سکتے تھے۔ “
اللہ سبحانہ نے مویشی پیدا کرنے کا بالمعوم احسان فرمایا اور ان میں سے اونٹوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا، کیونکہ وہ دوسرے جانروں کی بہ نسبت بار برداری اور بوجھ اٹھانے کے زیادہ کام آتے ہیں، بکریوں کا دودھ دوہا جاتا ہے اور ان کو ذبح کرکے کھایا جاتا ہے اور بھیڑوں سے اون بھی حاصل کیا جاتا ہے اور ان کے چمڑے سے بہت کار آمد اور مفید چیزیں بنائی جاتی ہیں اور گائے اور بیلوں سے ان فوائد کے علاوہ ہل بھی چلایا جاتا ہے اور اونٹنیوں سے ان کے علاوہ ان پر بوجھ بھی لاد جاتا ہے۔ حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص گائے کو لے کر جارہا تھا جس پر اس نے سامان لادا ہوا تھا، گائے نے اس کی طرف مڑکر کہا : میں اس لیے پیدا نہیں کی گئی، لیکن میں ہل چلانے کے لیے پیدا کی گئی ہوں۔ لوگوں نے کہا : سبحان اللہ اور انہوں نے تعجب اور خوف سے کہا : کیا گائے نے کلام کیا، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اور ابوبکر اور عمر اس پر ایمان لے آئے (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨٨، السنن الکبریٰ رقم الحدیث : ١٤١٤)
یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ گائے کو اس لیے نہیں پیدا کیا گیا کہ اس کے اوپر سواری کی جائے یا اس پر سامان لادا جائے وہ صرف ہل چلانے، نسل بڑھانے، اس کا دودھ پینے اور اس کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
جانوروں کے ساتھ نرمی کرنے کی ہدایت
اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ مویشیوں پر سواری کرکے سفر کرنا اور ان پر سامان لادنا جائز ہے، لیکن ان کی قوت برداشت سے زیادہ ان پر سامان نہ لادا جائے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانروں کے ساتھ بھی نرمی اور ملائمت سے پیش آنے کا حکم دیا ہے اور ان کے چارہ اور دانہ کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم فصلوں کے سرسبز اور زرخیز ہونے کے زمانہ میں سفر کرو تو اونٹوں کو بھی زمین کی پیداوار سے حصہ دو اور جب تم قحط کے ایام میں سفر کرو تو سفر جدلی طے کرو اور جب تم رات کے پچھلے حصہ میں ہو تو راستہ میں قیام کرنے سے احتراز کرو کیونکہ رات میں وہ زمین کیڑے مکوڑوں کی آما جگاہ ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٢٦، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٨١٤)
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ امام ابودائود نے روایت کیا ہے کہ مسیب بن آدم بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا : حضرت عمر بن الخطاب نے ایک شتر بان کو مارا اور فرمایا : اونٹ پر اس کی طات سے زیادہ سامان نہ لادا کرو۔
جانوروں کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک میں بھی داخل ہے کہ جب وہ کسی جانور سے ساری عمر کام اور خدمت لیں اور جب وہ جانور بوڑھا ہوجائے اور کام کے قابل نہ رہے تو اس کی دیکھ بھال میں کمی نہ کریں جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
یعلیٰ بن مرہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تین چیزیں دیکھی ہیں جن کو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا، میں آپ کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا، آپ ایک عورت اور اس کے بیٹے کے پاس سے گزرے، اس کے بیٹے پر جنون کی کیفیت تھی، میں نے اس سے زیادہ جنون کسی میں نہیں دیکھا۔ اس عورت نے کہا : یارسول اللہ ! آپ میرے بیٹے کی حالت دیکھ رہے ہوں ؟ آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں اس کے لیے دعا کروں، آپ نے اس کی لیے دعا کی، پھر وہاں سے چلے گئے، آپ کے پاس سے ایک اونٹ گزرا، یہ اونٹ کہہ رہا ہے : میں ان کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ مجھ سے کام لیتے رہے، حتیٰ کہ اب جب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو یہ مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کررہے ہیں، پھر آپ چلے گئے، آپ نے دوا لگ الگ درخت دیکھے۔ آپ نے مجھ سے کہا : جائو ان درختوں سے جا کر کہو کہ آپس میں مل جائیں، یہ درخت مل گئے، آپ نے قضاء حاجت کی، آپ نے مجھے فرمایا : ان درختوں سے کہو کہ پھر الگ الگ ہوجائیں، پھر آپ چلے گئے، جب واپس اس بچہ کے پاس سے لوٹے وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور اس کی ماں نے چھ مینڈھے مہیا کیے تھے جس میں سے دو مینڈھے آپ کو ہدیہ کیے اور مہنے لگی کہ اس کے بچہ کو پھر جنون نہیں ہوا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
ما من شیء الایعلم انی رسول اللہ الا کفرۃ الجن والانس۔
کافر جنات اور انسانوں کے سوا ہر چیزکا علم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ (المعجم الکبیر ج ٢٢ ص ٢٦٢۔ ٢٦١، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 13
[…] تفسیر […]