أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمۡ مِّنَ الۡفُلۡكِ وَالۡاَنۡعَامِ مَا تَرۡكَبُوۡنَۙ‏ ۞

ترجمہ:

اور جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے اور تمہارے لیے کشتیاں اور چوپائے پیدا کیے جن پر تم سوار ہوتے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے اور تمہارے لیے کشتیاں اور چوپائے پیدا کیے جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر سوار ہوسکو، پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب تم اس پر سیدھے بیٹھ جائو اور تم یہ کہو کہ وہ ذات ہر عیب اور نقص سے پاک ہے جس نے اس سواری کو ہماری قدرت میں کردیا اور ہم از خود اس پر قادر ہونے والے نہیں تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹنے والے ہیں اور انہوں نے بعض اللہ کے بندوں کو اس کا جز قرار دے دیا ہے، بیشک انسان ضرور کھلا ہوا ناشکرا ہے (الزخرف :12-15)

ازواج کی تخلیق سے توحید پر استدلال

الزخرف : ١٢ میں فرمایا : ” اور جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے “ اس آیت کی تین تفسیریں کی گئی ہیں :

(١) سعید بن جبیر نے کہا : ازواج سے مراد اقسام ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی چیزیں کو پیدا فرمایا ہے۔

(٢) ابن عیسیٰ نے کہا : اس سے مراد ہے : حیوانات میں سے مذکر اور مؤنث پر مشتمل جوڑے پیدا فرمائے۔

(٣) حسن بصری نے کہا : ہر چیز کا اپنے مقابل سے مل کر ایک جوڑا ہے، جیسے سردی اور گرمی، رات اور دن، آسمان اور زمین، سورج اور چاند، جنت اور دوزخ وغیرہ۔

ایک چوتھی صورت بھی ہوسکتی ہے اور اس سے مراد انسانوں کے وہ احوال اور صفات ہیں جن میں وہ منتقل ہوتے رہتے ہیں، مثلاً خیر اور شر اور ایمان اور کفر، خوش حالی اور تنگ دستی اور صحت اور بیماری وغیرہ۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٢١٧، بیروت)

بعض محققین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مساوا ہر چیز زوج ہے، کیونکہ کسی چیز کا زوج (جوڑا) ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ فی نفسہٖ ممکن ہے اور اس کے وجود سے پہلے کا عدم ہے اور اللہ سبحانہ فرد ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا مساوی یا اس کا مقابل ہو اور یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ فرد ہے اور زوجیت سے منزہ ہے، علماء نے اس پر دلائل قائم کیے ہیں کہ فرد (طاق) زوج (جوڑے) سے افضل ہے۔

(١) کم سے کم زوج (جوڑا) دو ہے اور دو کا عدد دو وحدتوں سے حاصل ہوتا ہے، پس زوج اپنے تحقق میں فرد کا محتاج ہوتا ہے اور فرد اپنے تحقق میں زوج سے مستغنی ہوتا ہے اور مستغنی محتاج سے افضل ہوتا ہے۔

(٢) زوج دو مساوی قسموں میں بلا کر کسر منقسم ہوجاتا ہے اور فرد بلا کسر منقسم نہیں ہوتا اور تقسیم کو قبول کرنا انفعال اور تاثر ہے اور تقسیم کو قبول نہ کرنا قوت، شدت اور مقاومت ہے۔ پس فروزوج سے افضل ہے۔

(٣) زوج کی دو قسمیں ذات، صفت اور مقدار میں مساوی ہوں گی اور ایک قسم میں جو کمال اور خوبی ہوگی وہ دوسری قسم میں بھی ہوگی اور فرد چونکہ دو قسموں پر منقسم نہیں ہوگا اس لیے اس میں جو کمال اور خوبی ہوگی وہ بےنظیر اور بےمثال ہوگی اور جو کمال بےنظیر اور بےمثال ہو وہ اس کمال سے افضل ہے جس کی نظیر اور مثال بھی ہو لہٰذا فرد، زوج سے افضل ہے۔

چوپایوں اور کشتیوں کی تخلیق سے توحید پر استدلال

اس کے بعد فرمایا : اور تمہارے لیے کشتیاں اور چوپائے پیدا کیے جن پر تم سوار ہوتے ہو “

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ توحید پر دلائل قائم فرمارہا ہے اور بندوں کو نعمتیں عطا فرمانا بھی توحید کی دلیل ہے، کیونکہ انسان اپنی تمدنی اور معاشی ضروریات کی وجہ سے ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف سفر کرتا ہے اور یہ سفر خشکی میں ہوتا ہے یا سمندر میں اور خشکی میں سفر کے لیے اس نے چوپائے مثلاً گھوڑے اور اونٹ وغیر پیدا کئے اور سمندری سفر کے لیے اس نے کشتیاں اور بحری جہاز پیدا کیے اور چونکہ تمام دنیا میں سفر کا یہی واحد نظام رائج ہے اس سے معلوم ہوا کہ ان کا خالق بھی واحد ہے، کیونکہ نظام کی وحدت ناظم کے واحد ہونے کی دلیل ہے، ہرچند کہ سائنس کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے اب سفر کے اور ذرائع اور وسائل بھی حاصل ہوگئے ہیں، جیسے ٹرین اور طیارے لیکن بنیادی طور پر سفر کے اب بھی یہی ذرائع اور وسائل ہیں خصوصاً سمندری سفر کو عام اور ہمہ گیر ذریعہ اب بھی بحری جہاز ہی ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 12