أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِىۡ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ‌ۚ فَاَنۡشَرۡنَا بِهٖ بَلۡدَةً مَّيۡتًا‌ ۚ كَذٰلِكَ تُخۡرَجُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جس نے آسمان سے معین مقدار میں پانی نازل کیا، پھر ہم نے اس سے مردہ شہر کو زندہ کردیا، اسی طرح تم (زندہ کرکے) نکالے جائو گے

الزخرف : ١١ میں فرمایا : ” اور جس نے آسمان سے معین مقدار میں پانی نازل کیا، پھر ہم نے اس سے مردہ شہر کو زندہ کردیا، اسی طرح تم (زندہ کرکے) نکالے جائو گے “

بارش نازل کرنے سے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر استدلال

اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ نے اتنی مقدار میں آسمان سے بارش نازل فرمائی ہے جس سے اس کے بندوں اور شہروں کو فائدہ پہنچے اور ان کو نقصان نہ ہو، جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں آسمان سے بہت سخت بارش نازل ہوتی تھی، جس سے بہت مہیب طوفان اور اس میں تمام کافر غرق ہوگئے اور عام اور غالب اوقات میں اللہ تعالیٰ کا یہی طریقہ ہے کہ وہ اتنی مقدار میں بارش نازل فرماتا ہے جس سے عام بندگان خدا اور مویشی فائدہ اٹھاسکیں اور کبھی بہت زیادہ بارش ہوتی ہے جس سے دریائوں میں سیلاب آجاتے ہیں اور اس سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے اور کئی شہر زیر آب آجاتے ہیں، بارش کا زیادہ ہونا، طوفانوں کا اٹھنا، زلزلوں کا آنا اور اسی طرح کی اور قدرتی آفات دراصل بندوں کے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں اور یہ فطرت کے تازیانے ہیں جو ان کی اجتماعی کوتاہیوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے مسلسل روگردانی اور بغاوت کی وجہ سے ظہور میں آتی ہیں۔

اس آیت میں ” انشرنا “ کا لفظ ہے، علامہ مجدالدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ لکھتے ہیں :

انشر کا معنی ہے : پاکیزہ ہوا، عورت کے منہ کی ہوا اور نیند کے بعد سانس چھوڑنا اور میت کو زندہ کرنا اور نشور اور انشار کا معنی حیات ہے، خشک گھاس پر گرمیوں میں جب بارش ہو اور وہ گھاس سرسبز ہوجائے تو اس کو بھی نشر کہتے ہیں۔ (القاموس المحیط ص ٤٨٢، مؤسسۃ الرسالۃ : ١٤٢٤ ھ) یعنی بارش کے پانی سے ہم نے زمین کو زندہ کردیا اور جس طرح بارش کے پانی سے زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالیٰ قبروں سے مردوں کو نکال کر ان کو زندہ فرمائے گا۔

اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روح کے آسمان سے ہدایت کا پانی نازل کیا اور اس سے مردہ دل کے شہر کو زندہ کردیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ بندہ کو اس کے وجود کی زمین کے اندھیروں سے نکال کر اس کے نور کی طرف نکال کر لاتا ہے اور جب تک ہدایت کے پانی سے اس کے مردہ دل کو زندہ نہ کردیا جائے اس وقت تک وہ اپنے وجود کی زمین کے اندھیروں سے نہیں نکل سکتا اور جس طرح جب تک زمین کے اندر دبے ہوئیے بیچ تک بارش کا پانی نہ پہنچ جائے اس وقت تک اس میں روئیدگی کے آثار ظاہر نہیں ہوتے اسی طرح جب تک ہدایت اور رشد سے بندہ کا دل زندہ نہ ہو اس پر اللہ تعالیٰ کے نور کا فیضان نہیں ہوتا۔

حسن بصری کی والدہ حضرت ام سلمہ (رض) ام المومنین کی باندی تھیں، ایک دفعہ وہ کسی کام سے گئی ہوئیں تھیں۔ حسن بصری رو رہے تھے، حضرت ام سلمہ (رض) نے ان کو بہلانے کے لیے اپنا پستان مبارک ان کے منہ میں دے دیا، وہ اس کو چوسنے لگے، اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں علم اور حکمت سے نوازا۔ (تہذیب الکمال ج ٤ ص ٢٩٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ، نبراس ص ٤٧ )

القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 11