وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖۤ اِنَّنِىۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 26
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖۤ اِنَّنِىۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور یاد کیجئے جب ابراہیم نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے کہا : بیشک میں ان سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور یاد کیجئے جب ابراہیم نے اپنے (عرفی) باپ اور اپنی قوم سے کہا : بیشک میں ان سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو سو اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے عنقریب (مزید) ہدایت دے گا اور انہوں نے اس (عقیدہ توحید) کو اپنی نسل میں باقی رکھا تاکہ ان کی اولاد اسی عقیدہ کی طرف رجوع کرے
(الزخرف : 26-28)
کفار مکہ کی بت پرستی کے خلاف اسوہ ابراہیم سے استدلال
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ کفار اور مشرکین کی بت پرستی اور ان کے شرک کا سبب ان کے آبائواجداد کی اندھی تقلید ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اصول اور عقائد میں تقلید کرنا باطل ہے اور عقائد کو دلائل سے ماننا چاہیے اور اب اس مضمون کو اللہ تعالیٰ ایک اور طریقہ سے بیان فرما رہا ہے۔
عرب کے لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا جدامجد مانتے تھے اور ان کی اولاد ہونے پر فخر کرتے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عرفی باپ یعنی ان کے چچا آزر شرک کرتے تھے، اگر عقائد میں تقلید کرنا برحق ہوتا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آزر کی اور اپنی قوم کے آبائواجداد کی تقلید کرتے اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عقائد میں تقلید نہیں کی اور ان کے شرک اور ان کی بت پرستی سے اعراض کیا اور بیزاری کا اظہار کیا تو واضح ہوگیا کہ عقائد میں باپ دادا کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے بلکہ دلیل اور محبت کے ساتھ عقائد کو اپنانا چاہیے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 26