وَجَعَلُوۡا لَهٗ مِنۡ عِبَادِهٖ جُزۡءًا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَـكَفُوۡرٌ مُّبِيۡنٌ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَجَعَلُوۡا لَهٗ مِنۡ عِبَادِهٖ جُزۡءًا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَـكَفُوۡرٌ مُّبِيۡنٌ۞
ترجمہ:
اور انہوں نے بعض اللہ کے بندوں کو اس کا جز قرار دے دیا ہے، بیشک انسان ضرور کھلا ہوا ناشکرا ہے ؏
تفسیر:
الزخرف : ١٥ میں فرمایا : ” اور انہوں نے بعض اللہ کے بندوں کو اس کا جز قرار دے دیا ہے، بیشک انسان ضرور کھلا ہوا ناشکرا ہے “
اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں : ایک یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں کو اللہ تعالیٰ کا جز یعنی اس کی اولاد قراردے دیا۔ جیسے یہودیوں نے کہا : عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائیوں نے کہا : مسیح اللہ کے بیٹے ہیں اور مشرکین نے کہا : فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عرب میں اولاد کے اوپر جز کا اطلاق کیا جاتا ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
حضرت مسور بن مخرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برسر منبر فرمایا : بنو ہشام بن المغیرہ نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کردیں۔ میں (اس کی) اجازت نہیں دیتا، میں پھر اجازت نہیں دیتا، میں پھر اجازت نہیں دیتا، سوا اس کے کہ علی بن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور وہ ان کی بیٹی سے نکاح کرلیں، کیونکہ فاطمہ میرے جسم کا جز ہے، جو چیز اس کو اذیت دے وہ مجھ کو اذیت دیتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٣٠، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٠٧١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٩٨، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٣٧٠)
اس آیت کی دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ مشرکین نے جب اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی معبود مان لیے تو انہوں نے تمام بندوں کو اللہ کے لیے مانا بلکہ انہوں نے کہا کہ بعض بندے ان کے خود ساختہ معبودوں کے ہیں اور بعض بندے اللہ کے ہیں، گویا اللہ کے بندوں کا ایک جزیا ایک حصہ تو اللہ کے لیے ہے اور باقی ان کے خود ساختہ خدائوں کا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 15