أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰهُمۡ‌ؕ مَا لَهُمۡ بِذٰلِكَ مِنۡ عِلۡمٍ‌ اِنۡ هُمۡ اِلَّا يَخۡرُصُوۡنَؕ ۞

ترجمہ:

اور انہوں نے کہا : اگر رحمن چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے انہیں اس کا کچھ علم نہیں، وہ محض اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہیں

تفسیر:

کفار کے اس اعتراض کا جواب کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم بتوں کی عبادت نہ کرتے

الزخرف : ٢٠ میں فرمایا : ” اور انہوں نے کہا : اگر رحمن چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے انہیں اس کا کچھ علم نہیں، وہ محض اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہیں “

مشرکین نے اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے بات کہی، اللہ تعالیٰ کسی انسان کو جبراً ہدایت یافتہ بنانا نہیں چاہتا، اگر وہ جبراً ہدایت یافتہ بنانا چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت یافتہ بنا دیتا ، قرآن مجید میں ہے :

ولو شاء اللہ لجمعنھم علی الھدی۔ (الانعام :35)

اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر جمع کردیتا۔

ولو شاء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ ولکن لیلوکم فی اماتکم۔ (المائیدہ :48)

اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا ، لیکن وہ چاہتا ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔

لو شاء اللہ ما اشرکو وما جعلنک علیھم حفیظا۔ (الانعام :107)

اگر اللہ چاہتا تو یہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان کے اوپر نگران نہیں بنایا۔

ولو شاء ربک لا من من فی الارض کلھم جمیعا۔ (یونس :99)

اور آپ کا رب چاہتا تو روئے زمین کے لوگوں میں سے سب کے سب ایمان لے آتے۔

ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ تھا کہ اگر وہ جبراً ہدیت دینا چاہتا تو سب کو ہدایت یافتہ بنا دیتا ، یہ چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو ہے لیکن اس کی حکمت میں نہیں ہے، اس کی حکمت کا منشاء یہ یہ تھا کہ لوگ اپنے اختیار سے ایمان لائیں، اس نے تمام انسانوں کو اختیار دیا ہے اور جو انسان جس چیز کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس چیز کو پیدا کردیتا ہے، وہ ایمان کو اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے ایمان کو پیدا کردیتا ہے اور اگر وہ کفر اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کفر کو پیدا کردیتا ہے، تو یہ کفار بھی اگر ایمان کو اختیار کرتے اور ایمان لانے کا ارادہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے ایمان کو پیدا کردیتا، اس لیے آخرت میں ان کا یہ قول غلط اور باطل ہے کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم بتوں کی عبادت نہ کرتے، کیونکہ رحمان کسی کو جبراً مومن بنانا نہیں چاہتا۔

معتزلہ کا جبر یہ پر اعتراض اور امام رازی کا جبریہ کی طرف سے جواب

امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

معتزلہ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ آیت جبریہ کے قول کے فساد پر دلالت کرتی ہے، جبریہ یہ کہتے ہیں کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ہوتا ہے اور اس آیت میں مذکور ہے کہ کفار نے کہا : اگر رحمان چاہتا تو ہم بتوں کی عبادت نہ کرتے، اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا کہ ان کو کچھ علم نہیں ہے، وہ صرف اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہیں، اس آیت کا مفاد یہ ہے کہ گویا کفار نے کہا : ہم نے اللہ کے چاہنے اور اس کے ارادہ کی وجہ سے بتوں کی عبادت کی اور یہی جبریہ کا مذہب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو صراحتاً رد کردیا کہ ان کو کچھ علم نہیں ہے، وہ محض اٹکل پچو سے باتیں کررہے ہیں، لہٰذا جبر یہ کا مسلک باطل ہوگیا۔ اس آیت کی نظیر سورة الانعام کی یہ آیت ہے :

سیقول الذین اشرکوا لوشاء اللہ ما اشرکنا ولا ابائو نا ولا حرمنا من شی کذلک کذب الذین من قبلھم حتی ذاقوا باسنا قل ھل عندکم من علم فتخرجوہ لنا ان تتبعون الا الظن وان انتم الا تخرصون (الانعام :148)

عنقریب مشرکین یہ کہیں گے : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام قراردیتے، اسی طرح ان سے پہلو نے تکذیب کی تھی حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھ لیا، آپ کہیے : کیا تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے لائو، تم لوگ صرف اپنے گمان کی پیروی کررہے ہو اور تم محض اٹکل پچو سے باتیں کررہے ہو

امام رازی فرماتے ہیں : معتزلہ کے اس اعتراض کا برحق جواب وہ ہے جس کو ہم نے سورة الانعام کی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کفار نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کفر کا ارادہ کیا اور جب اس نے ان سے کفر کا ارادہ کیا تو اب اس کا ان کو ایمان لانے کا امر کرنا اور ایمان لانے کا حکم دینا جائز نہیں اور کفار کا اعتقاد یہ تھا کہ امر اور ارادہ کو مطابق ہونا چاہیے اور ہمارے نزدیک کفار کا یہ استدلال باطل ہے، پس کفار صرف اس وجہ سے مذمت کے مستحق نہیں ہوئے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کافر سے کفر کا ارادہ کرتا ہے، بلکہ وہ اس وجہ سے مذمت کا مستحق ہوئے کہ انہوں نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے ان سے کفر کا ارادہ کرلیا تو اب ان کو ایمان لانے کا حکم دینا اس کے لیے قبیح ہے اور جائز نہیں اور جب ہم نے کفار کی مذمت کرنے کو اس طرف راجع کیا تو اب معتزلہ کا جبریہ پر جو اعتراض تھا وہ ساقت ہوگیا اور اس کی پوری تقریر سورة الانعام میں ہے۔ (تفسیر کبیرج ٩ ص ٦٢٧۔ ٦٢٦، ملخصا، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

جبریہ کی حمایت میں سورة الانعام کی تقریر

سورۃ الانعام میں امام رازی نے جو تقریر کی ہے وہ اس طرح ہے :

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار سے یہ حکایت کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کے باطل ہونے پر استدلال کرتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ ان کا استدلال باطل اور فاسد ہے، کفار کے استدلال کی تقریر یہ ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادہ سے ہوتے ہیں تو پھر انسانوں کو احکام شرعیہ سے مکلف کرن عبث ہوگا اور انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث کرنا بھی بےفائدہ ہوگا، کیونکہ جب سب کام اللہ تعالیٰ کے چاہنے اور اس کے ارادہ سے ہورہے ہیں تو پھر انبیاء علیہم لاسلام تبلیغ کریں یا نہ کریں لوگ وہی عمل کریں گے جو اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر انبیاء (علیہم السلام) کا دعویٰ نبوت کرنا باطل ہوگا۔ بلکہ ان کی نبوت اور رسالت بھی باطل ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ باطل فرمایا کہ کفار کا اس طریقہ سے انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کو باطل کرنا بھائے خود باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ معبود ہے، وہ جو چاہے کرے اور جس چیز کا ارادہ کرے وہ حکم دے، اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کافر سے کفر کا ارادہ کرتا ہے، اس کے باوجود وہ انبیاء (علیہم السلام) کو مبعوث فرماتا ہے اور کافر کو ایمان لانے کا حکم دیتا ہے اور ارادہ کے خلاف حکم دینا ممتنع نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے استدلال کرکے انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کو باطل کرتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ان کا استدلال باطل اور فاسد ہے کیونکہ تمام کاموں کا اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہونا، انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کو باطل نہیں کرتا، پس معتزلہ کا جبریہ کے خلاف استدلال ساقط ہوگیا۔ (تفسیر کبیر ج ٥ ص ١٧٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

جبریہ کی حمایت میں امام رازی کے عقلی دلائل۔

اس کے بعد امام رازی اسی بحث میں یہ فرماتے ہیں :

پس ثابت ہوگیا کہ ظاہر قرآن اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافر سے ایمان کا ارادہ نہیں کرتا اور عقلی دلیل بھی اسی پر دلالت کرتی ہے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ اس آیت سے یہ مراد ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کفار کو جبراً مومن بنا دیتا تو یہ کئی وجوہ سے باطل ہے :

(١) ہم یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ ہدایت دینا چاہتا تو تم کو ہدایت دے دیتا اور تم یہ کہتے ہو کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ جبراً ہدایت دینا چاہتا تو تم کو ہدایت دے دیتا، سو تم اس آیت کا معنی کرنے کے لیے اس میں جبراً کا لفظ محذوف مانتے ہو، لہٰذا تمہارا کیا ہوا معنی مرجوح ہے۔

(٢) اللہ تعالیٰ کافر کے ایمان اختیاری کا ارادہ کرتا ہے اور جبر سے جو ایمان حاصل ہوگا وہ ایمان غیر اختیاری ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے اور اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مراد کے حصول پر قادر نہیں ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا عاجزہونا لازم آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مراد ایمان اختیاری ہے اور وہ اس کو حاصل کرنے پر قادر نہیں ہے پھر اللہ تعالیٰ کے عجز کا قول کرنا لازم ہوگا۔

(٣) اس بحث کا سمجھنا اس پر موقوف ہے کہ ایمان بالا اختیار اور ایمان بالجبر کے درمیان فرق کیا جائے اور متکلمین نے ان کے درمیان جو فرق کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان بالا ختیار کے لیے بندہ کے دل میں ایمان کا داعی اور محرک کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ داعی اور محرک یا تو اس حیثیت سے ہوگا کہ اس کے بعد ایمان کا حصول واجب اور ضروری ہوگا یا اس داعیہ کے بعد ایمان کا حصول واجب نہیں ہوگا، اگر اس داعی کے بعد ایمان کا حصول واجب نہیں ہے تو اس داعی اور محرک کے بعد کبھی ایمان حاصل ہوگا اور کبھی ایمان حاصل نہیں ہوگا، پھر ایمان کے حصول کے لیے ایک اور داعی اور محرک کے وجود کو فرض کرنا پڑے گا اور اس سے تسلسل لازم آئے گا اور اگر اس داعی اور محرک کے بعد ایمان کا حصول واجب ہو تو پھر وہ داعی اور محرک اختیاری نہیں رہے گا بلکہ واجب اور ضروری ہوجائے گا اور متکلمین نے جو داعی ضروری اور داعی اختیاری میں فرق اختیاری نہیں رہے گا واجب اور ضروری ہوجائے گا اور متکلمین نے جو داعی ضروری اور داعی اختیاری میں فرق کیا ہے وہ فرق باطل ہوجائے گا۔ (تفسیر کبیر ج ٥ ص ١٧٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

انسانوں کے لیے اختیار کے ثبوت میں مصنف کی تقریر

اس مقام پر تین چیزیں ہیں : ایک مشیت، دوسری چیز اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور تیسری چیز اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کا حکم ہے۔

اللہ تعالیٰ اس وقت راضی ہوتا ہے جب اس کے امر اور اس کے حکم پر عمل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کا ارادہ اس کی رضا اور اس کے حکم سے عام ہے۔

اس کائنات میں ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادہ سے ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز سے راضی نہیں ہوتا اور نہ ہر چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے۔

جہاں تک انسانوں کے افعال کا تعلق ہے، انسانوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ انسان کے اسی فعل کو پیدا کرتا ہے، جس فعل کو انسان خود اختیار کرتا ہے، اور اسی اختیار کی بناء پر اس کو جزاء اور سزا دی جاتی ہے، اگر انسان کو اختیار نہ دیا گیا ہوتا تو پھر رسولوں کو بھیجنا، حساب اور کتاب لینا، میزان قائم کرنا، جزاء اور سزا دینا یہ تمام امور عبث اور بےکار ہوجائیں گے۔ قرآن مجید کی حسب ذیل آیات میں اس پر دلیل ہے کہ انسان کو اچھے برے کاموں اور ایمان اور کفر کا اختیار دیا گیا ہے اور اس کے نیک کاموں پر اس کو جزاء ملے گی اور برے کاموں پر وہ سزا کا مستحق ہوگا۔

ونفس وماسوھا فالھمھا فجورھا وتقوھا قد افلح من رکھا وقد خاب من دسھا (الشمس :7-10)

قسم ہے نفس کی اور اس کو صحیح بنانے کی پھر اللہ نے اس نفس میں اس کی بُرائی اور بھلاگی کا ادراک پیدا کردیا جس نے نفس کو (گناہوں سے) پاک رکھا وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے نفس کو ضائع کردیا وہ ناکام ہوگیا

اگر انسان کے نیک کام کرنے یا برے کام کرنے میں اس کا کوئی دخل اور اختیار نہ ہو تو یہ آیات عبث قرار پائیں گی۔

الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدینہ النجدین (البلد :8-10)

کیا ہم نے انسان کی دو آنکھیں نہیں بنائیں اور زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے اور کیا ہم نے اس کو (نیکی اور بدی کے) دونوں راستے نہیں دکھائے

احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون (العنکبوت :2)

کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی

لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ (البقرہ :286)

اللہ تعالیٰ ہر نفس کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف فرماتا ہے۔

اور کسی بھی شخص کو مکلف کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس کو کسی فعل کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنے احکام کا مکلف کیا ہے، وہ اس کے احکام پر عمل کریں گے تو ان کو اجر وثواب ملے گا اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کو سزا ملے گی، اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور درختوں کو اختیار نہیں دیا تو ان کو اپنے احکام کا مکلف بھی نہیں فرمایا اور انسانوں کو اختیار دیا ہے تو ان کو مکلف بھی فرمایا ہے۔

انسان کے بااختیار ہونے کی واضح مثال یہ ہے کہ جو انسان رعشہ میں مبتلا ہوتا ہے وہ چاہے نہ چاہے اس کے ہاتھ حرکت کرتے رہتے ہیں اور لرزتے اور کپکپاتے رہتے ہیں اور تندرست انسان اپنے اختیار سے اپنے ہاتھوں کو حرکت دیتا ہے، اسی طرح جس انسان کے ہاتھوں پر فالج ہو اس کے ہاتھ ساکت رہتے ہیں، وہ اپنے اختیار سے اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا اور تندرست انسان کا معاملہ اس طرح نہیں ہوتا۔

قرآن مجید کی مذکور الصدر آیات اور عقلی دلائل سے یہ واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو نیک اور بدافعال کرنے کا اختیار عطا فرمایا ہے اور وہ جس فعل کو اختیار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان میں وہی فعل پیدا کردیتا ہے اور انسانوں کو جمادات کی طرح بےاختیار اور مجبور پیدا نہیں فرمایا اور اس تقریر سے یہ معلوم ہوگیا کہ جبریہ کی حمایت میں امام رازی کا یہ فرمانا درست نہیں ہے کہ کافر کے کفر کا اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے اور اسکے چاہنے سے کافر کفر کرتا ہے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ کافر کفر کو اختیار کرتا ہے اور کفر کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور تمام اعمال کا اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے لیکن ایمان اور اعمال صالحہ کے خلق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے اور کفر اور فسق کے خلق کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت نہیں کرنی چاہیے۔ اگرچہ دونوں کو اللہ تعالیٰ ہی خلق کرتا ہے۔

جبریہ کی حمایت میں امام رازی کے عقلی دلائل کے جوابات

اب ہم امام رازی کے عقلی دلائل کا جائزہ لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

فلوشاء لھدئکم اجمعین (الانعام :149)

پس اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا

ہم کہتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ جبراً ہدایت دینا چاہتا تو تم سب کو ہدایت دیتا، امام رازی فرماتے ہیں تم اس میں جبراً کا لفظ محذوف مانتے ہو اور ہم اس میں جبراً کا لفظ محذوف نہیں مانتے اور جو معنی بغیر حذف مانے کیا جائے وہ بہتر ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ بعض اوقات قرآن مجید کی کسی آیت میں کوئی لفظ محذوف ہوتا ہے اور جب تک اس لفظ کو محذوف نہ مانا جائے تو معنی صحیح نہیں بنتا، جیسے فرمایا : ” وسئل القریۃ “ (یوسف :82) آپ اس بستی سے سوال کیجئے، یعنی بستی والوں سے۔

امام رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

یہاں یہ مراد ہے : اھل قریۃ (بستی والوں) سے سوال کیجئے اور یہاں اختصار کی بناء پر مضاف کو حذف کردیا گیا ہے اور مجاز کی یہ قسم لغت عرب میں مشہور ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٤٩٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

سو اسی طرح الانعام : ١٤٩ میں جبراً کا لفظ محذوف ہے، ورنہ ان تمام آیت کا خلاف لازم آئے گا جن میں انسان کے لیے اختیار ثابت فرمایا ہے۔

امام رازی کی دوسری عقلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کافر کے ایمان اختیاری کا ارادہ کرتا ہے اور جبر سے جو ایمان حاصل ہوگا وہ غیر اختیاری ہوگا، اس سے لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مراد کے حصول پر قادر نہ ہو اور عاجز ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مراد ایمان اختیاری ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ایمان بالاختیار اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے کہ بندے اپنے اختیار سے اس پر ایمان لائیں اور وہ اپنے بندوں کے کفر سے راضی نہیں ہوتا، قرآن مجید میں ہے۔

ولا یرضی لعبادہ الکفر۔ (الزمر :7)

اللہ اپنے بندوں کے کفر سے راضی نہیں ہوتا۔

یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد حاصل نہ ہو البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی رضا حاصل نہ ہو۔

امام رازی کی تیسری دلیل یہ ہے کہ ایمان اختیاری داعیہ جازمہ اور ارادہ لازمہ پر موقوف ہے الخ، ہم کہتے ہیں کہ اس داعی اور محرک سے کیا مراد ہے، اللہ کے لیے داعی اور محرک ہو تو یہ صحیح نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کو اپنے افعال کے لیے کسی داعی اور محرک کی ضرورت نہیں ہے اور اگر مخلوق کا داعی اور اور اس کا ارادہ جازمہ مراد ہے تو مخلوق اپنے افعال کی خالق نہیں ہے، وہ صرف اپنے افعال کی کا سِب ہے اور کسب کا معنی ہے : ارادہ کرنا، مخلوق جس فعل کا ارادہ کرتی ہے اللہ اس میں وہ فعل پیدا کردیتا ہے، اس کے لیے ایسے داعیہ جازمہ اور ارادہ لازمہ کی ضرورت نہیں ہے جس کے بعد فعل کا حصول واجب ہو کیونکہ یہ علت نامہ کی شان ہے اور مخلوق اپنے افعال کے لیے علت نامہ نہیں ہے، وہ صرف کاسب ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ” فلوشاء لھدئکم اجمعین “ کا یہی معنی ہے کہ اگر اللہ جبراً ہدایت دینا چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا، لیکن اللہ انسانوں کو جبراً ہدایت دینا نہیں چاہتا کیونکہ اس نے انسان کو فاعل مختار بنایا ہے اور اس کی رضا اس میں ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اس پر ایمان لائیں، اس آیت کی تفسیر میں گفتگو طویل ہوگئی لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ جبریہ کی تائید میں جو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے، اس کا مکمل جواب آجائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 20