أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَذٰلِكَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ فِىۡ قَرۡيَةٍ مِّنۡ نَّذِيۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡهَاۤ اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰٓى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓى اٰثٰرِهِمۡ مُّقۡتَدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جس بستی میں بھی کوئی عذاب سے ڈرانے والا بھیجا تو وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان ہی کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور اسیطرح ہم نے آپ سے پہلے جس بستی میں بھی کوئی عذاب سے ڈرانے والا بھیجا تو وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان ہی کے قدموں کے نشانات کی پیروی کرنے والے ہیں (اس نبی نے) کہا : خواہ میں اس کی بہ نسبت ہدایت دنے واتلا دین لے کر آیا ہوں جس دین پر تم اپنے باپ دادا کو پایا ہے، انہوں نے کہا : جس دین کو دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کا کفر کرنے والے ہیں پھر ہم نے ان سے انتقام لیا، سودیکھئے تکذیب کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا (الزخرف : 23-25)

دنیاوی مال ومتاع کا مذموم ہونا

اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ کفار اپنے آبائو اجداد کی گمراہی اور کفر میں اندھی تقلید کررہے ہیں اور اس کے سوا ان کے پاس اور کوئی دلیل نہیں ہے، نیز یہ فرمایا کہ اس بستی کے خوشحال اور آسودہ حال لوگوں نے اپنے کفر پر اپنے آبائواجداد کی تقلید کو دلیل بنایا، یعنی ان کی خوشحالی اور مال و دولت کی کثرت نے ان کو دنیا کی لذتوں اور شہوتوں میں اس قدر بدمست کردیا کہ وہ آخرت سے بالکل بےبہرہ ہوگئے اور احادیث میں بھی اس کا بیان ہے کہ دنیا کی رنگینیوں اور عیش ونشاط سے انسان آخرت سے غافل ہوجاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان لوگوں کا کیا حال ہے جو دولت مندوں کی تکریم کرتے ہیں اور عبادت گزاروں کی تخفیف کرتے ہیں اور قرآن مجید کی ان آیات پر عمل کرتے ہیں جو ان کی خواہشوں کے موافق ہوں اور جو آیات ان کی خواہشوں کے خلاف ہوں ان کو چھوڑ دیتے ہیں اور ایسی صورت میں وہ قرآن کی بعض آیات پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا کفر کرتے ہیں اور اس چیز کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں جو ان کو بغیر محنت کے حاصل ہوجائے، وہ ان کی تقدیر ہو یا رزق مقسوم ہو اور اس چیز کے حصول کے لیے کوشش نہیں کرتے جس میں محنت کرنی پڑتی ہے جو کہ آخرت میں ان کی وافر جزاء ہے اور ان کا وہ شکر ہے جس پر اجر ملتا ہے اور یہ وہ تجارت ہے جس میں گھاٹا نہیں ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٤٣٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس کی سند میں ایک روای عمر بن یزید الرفاء ضعیف ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٧٠٤)

حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص پر بھی دنیا کھول دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لبے بغض اور عداوت ڈال دیتا ہے، حضرت عمر نے کہا : میں اس سے ڈرتا ہوں۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٩٣، مسند البزار رقم الحدیث : ٣٦٠٩، امام بزار کی سند میں ابن لحیعہ نام کا ضعیف راوی ہے)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے تم پر فقر کا خطرہ نہیں ہے، لیکن مجھے تم پر مال کی کثرت کا خوف ہے اور مجھے تم پر خطاء کا خطرہ نہیں ہے لیکن مجھے تم پر عمد کا خطرہ ہے۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٨٠٦٠، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٧٤٢ )

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں کو صرف دینار اور درہم نے ہلاک کردیا اور یہ تم کو بھی ہلاک کرنے والے ہیں۔ (مسندالبزار رقم الحدیث : ٣٦١٣، حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ١٠٢، امام بزار کی سند جید ہے۔ جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٥٥٨ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 23