وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَيَقُوۡلُنَّ خَلَقَهُنَّ الۡعَزِيۡزُ الۡعَلِيۡمُۙ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 9
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ لَيَقُوۡلُنَّ خَلَقَهُنَّ الۡعَزِيۡزُ الۡعَلِيۡمُۙ ۞
ترجمہ:
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ ان کو اس نے پیدا کیا ہے جو بہت غالب اور بےحد علم والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ ان کو اس نے پیدا کیا ہے جو بہت غالب اور بےحد علم والا ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو (آرام کا) گہوارہ بنادیا اور تمہارے لیے اس میں متعدد راستے بنادیئے تاکہ تم ہدایت پاسکو اور جس نے آسمان سے معین مقدار میں پانی نازل کیا، پھر ہم نے اس سے مردہ شہر کو زندہ کردیا، اسی طرح تم (زندہ کرکے) نکالے جائو گے (الزخرف :9-11)
انسان کی فطرت میں اللہ کی معرفت کا ہونا
یعنی اے رسول مکرم ! اگر آپ کفار مکہ سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمینوں کو اور تمام اجرام علویہ اور سفلیہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو وہ ضرور اعتراف کرتے ہوئے یہ کہیں گے کہ ان سب کو اس نے پیدا کیا ہے جو اپنے ملک میں اپنے حکم کو نافذ کرنے پر قادر ہے اور جو اپنی مخلوق کے تمام احوال کو جاننے والا ہے۔
اس آیت میں فرمایا ہے کہ کفار یہ کہیں گے کہ ” خلفھن العزیز العلیم “ ان کو اس نے پیدا کیا ہے جو بہت غالب اور بےحد علم والا ہے۔ آیا کفار نے بعینہ یہ کہا تھا یا اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب کو اپنے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، اس میں مفسرین کی دورائیں ہیں : ایک رائے یہ ہے کہ کفار ایسا فصیح وبلیغ کلام کہنے پر قادر نہیں ہیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام سے ان کے قول کو تعبیر کیا ہے اور یہی رائے برحق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ انہوں نے اسی طرح کہا تھا جس طرح اللہ نے اس کو نقل فرمایا ہے۔
اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی معرفت مرکوز ہے، یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے پوچھا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے کہا : کیوں نہیں ! اس سے معلوم ہوا کہ سب انسانوں کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی توحید مرکوز ہے، لیکن اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ان ہی لوگوں کو اپنی ذات کی طرف رہنمائی کرتا ہے جنہوں نے اس معرفت کو سلامت رکھا ہے اور معرفت کو جہالت، اندھی تقلید اور عناد سے ضائع نہیں کیا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 9