مسلم سیاسی پارٹی مفیدیا مضرایک تجزیہ

قسط اول

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

آزاد بھارت کا پہلا انتخاب 1952 میں مکمل ہوا تھا۔اس الیکشن نے ملک کی اکثریت کی سوچ اور ان کے مزاج کی جھلک دکھا دی تھی، لیڈران ملک کی بدلتی ہوا کو بھانپ چکے تھے اس لیے کانگریس کی زبردست مقبولیت کے باوجود مذہب اور ذات پر مبنی پارٹیوں نے بھی قسمت آزمائی کی اور کامیابی پائی۔انتخاب میں کانگریس سمیت 54 پارٹیاں شامل تھیں۔جن میں ہندو مہاسبھا اور جَن سَنگھ جیسی کٹّر ہندو پارٹیاں بھی میدان میں اتریں۔ڈاکٹر امبیڈکر جسیے تعلیم یافتہ شخص بھی ذات پر مبنی SCF “شیڈیول کاسٹ فیڈریشن” نامی پارٹی بنا کر میدان میں اترے۔کانگریس سب سے پرانی اور بڑی پارٹی تھی۔لاکھوں کارکنان تھے، عوامی مقبولیت سب سے زیادہ تھی اس لیے اس کے مقابلے میں کوئی پارٹی نہیں تھی۔489 سیٹوں میں سے 364 سیٹیں جیت کر کانگریس پہلے نمبر پر رہی تو دوسرے نمبر پر کمیونسٹ پارٹی آئی جسے محض 12 سیٹیں حاصل ہوئیں۔مسلم دشمنی پر مبنی ہندو مہا سبھا اور جَن سَنگھ ( جو بعد میں بی جے پی کہلائی) کو بھی عوامی حمایت حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں ہندو مہا سبھا کو چار اور جَن سَنگھ کو تین سیٹوں پر کامیابی ملی۔امبیڈکر صاحب خود تو الیکشن ہار گئے مگر ان کی پارٹی کے دو لوگ ممبر پارلیمنٹ بننے میں کامیاب رہے۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان پوری طرح منظر نامہ سے غائب تھے۔ان دنوں جمیعۃ علماے ہند سب سے بڑی تنظیم اور مولانا آزاد سب سے بڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔دونوں ہی پکے کانگریسی اور سچے گاندھی وادی تھے اس لیے آزادی کے فوراً بعد لکھنؤ میں منعقدہ سیمنار میں یہ اعلان کیا گیا:

“جو ہونا تھا سو ہوگیا، لیکن اب ہندوستانی مسلمانوں کو سیاسی پارٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جو حضرات الیکشن لڑنا چاہتے ہیں وہ انفرادی یا کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں۔”

یہ اعلان آگے چل کر گویا خدائی الہام بن گیا۔سیکولرزم کے منافی قرار دے کر مسلم سیاسی پارٹی کا تصور تک گناہ عظیم بنا دیا گیا۔اس لیے یہ سوال پوری شدت سے جواب چاہتا ہے کہ جب تمام طبقات اپنے اپنے سیاسی حقوق کے لیے جد و جہد کر رہے تھے تو مسلمانوں کو سیاسی پارٹی بنانے سے کس لیے اور کس کے اشارے پر روکا گیا اور جمیعۃ کے سیاسی کرادر کا خاتمہ کیوں کیا گیا؟

مولانا آزاد اور جمیعۃ کے اس اعلان کو جنوبی ہند کے مسلمانوں نے سرے سے قبول نہیں کیا۔محمد اسماعیل صاحب کی قیادت میں انڈین یونین مسلم لیگ سامنے آئی۔اس پارٹی کے بانیان پہلے جناح کی مسلم لیگ میں شامل اور اپنی قیادت کی اہمیت کو اچھی طرح جانتے تھے اس لیے انہوں نے محدود پیمانے پر ہی صحیح اپنی ہی قیادت کو پروان چڑھایا لیکن شمالی ہند کے مسلمان آزاد صاحب اور جمیعۃ کی ان تھک کوششوں کے باعث مسلم پارٹی کے نام سے ہی بھاگتے رہے اور ابھی تک بھاگ رہے ہیں۔

أزادی کے بعد مسلم پارٹی کیوں نہیں بنی؟

آزادی تک مسلمان دو سیاسی نظریات میں تقسیم تھے، طبقہ اول کانگریس سے وابستہ اور گاندھی، نہرو کی قیادت کا حامی تھا جبکہ طبقہ دوم کے افراد مسلم لیگ کے ساتھ اور اپنی قیادت کے حامی تھے۔آزادی ملتے ہی طبقہ دوم کے افراد پاکستان ہجرت کر گیے اس طرح ملک میں صرف طبقہ اول رہ گیا جو دل وجان سے کانگریس اور گاندھی جی کا ہم نوا تھا۔مولانا آزاد کے علاوہ جمیعۃ کے صدر مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے افراد کانگریس کے سب سے بڑے حامی اور وکیل ہوا کرتے تھے۔یہ حمایت غیر مشروط اور بغیر کسی یقین دہانی کے تھی، تینوں ہی حضرات کانگریس اور گاندھی جی سے انتہائی جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔گاندھی اور نہرو پر اس قدر بھروسہ تھا کہ دستور ساز کمیٹی میں وندے ماترم جیسے شرکیہ ترانے کو قومی گیت کا درجہ دیا گیا، رہنما ہدایات کے تحت یکساں سِوِل کوڈ شامل کیا گیا مگر یہ حضرات پر اسرار طریقے پر خاموش رہے۔اس کی دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں؛ یا تو انہیں ان معاملات کی سنگینی کا احساس نہیں ہوسکا یا پھر گاندھی نہرو پر ضرورت سے زیادہ اعتماد نے انہیں سوچنے ہی نہیں دیا۔انہیں لگتا تھا کہ گاندھی نہرو ان کے ساتھ کچھ غلط کر ہی نہیں سکتے۔

اب جہاں اعتبار واعتماد اس درجے کا ہو وہاں اپنی سیاسی پارٹی کا خیال کیوں کر آسکتا تھا؟ اسی اعتماد یا اشارے پر اپنی خود کی تنظیم جمیعۃ علماے ہند کا سیاسی کردار ختم کردیا گیا۔یہ فیصلہ کس قدر عجیب ہے کہ جب تک ملک انگریزی شکنجے میں تھا تو خوب سیاست کی گئی جب سیاست کا اصلی دور آیا تو سیاست سے توبہ کرلی گئی۔شمالی ہند میں تو مسلم پارٹی کا دروازہ بند کردیا گیا مگر جنوبی ہند میں انڈین یونین مسلم لیگ مسلم پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔اور آج تک مسلم لیگ کیرل میں ایک مضبوط مسلم پارٹی بنی ہوئی ہے۔یہ پارٹی تنہا اقتدار میں تو نہیں آئی مگر سیاسی قوت کی بدولت شریک اقتدار رہی جس کی بدولت کیرل کے مسلمان دوسروں سے زیادہ خوش حال ہیں۔

مسلم پارٹی: خدشات اور حقائق

مسلم پارٹی بنانے اور مسلم کاز کی سیاست کو لیکر ملک کے کئی صحافی، دانش ور اور خاصے پڑھے لکھے لوگ سرے سے خارج کر دیتے ہیں، ان حضرات کے خدشات کچھ اس طرح ہیں؛

🔸مسلم کاز کی سیاست کی گئی تو 80 فیصد ہندو ووٹر متحد ہوجائے گا۔

🔹مسلمان ملک میں 15 فیصد ہیں ایسے میں اکیلے کیا کر سکتے ہیں، چند سیٹیں جیت بھی لیں تو اس سے مسلمانوں کا کیا فائدہ ہوگا؟

🔹سیکولرزم کے سہارے ہی ہندو شدت پسندوں کو روکا جا سکتا ہے، بصورت دیگر مسلمان آسان نوالہ ہوں گے۔

🔸اپنی پارٹی بنانے سے مسلمان الگ تھلگ اور سیاسی طور پر اچھوت ہوجائیں گے۔

🔹 مسلمان کشمیر چھوڑ کر ملک کے کسی بھی صوبے میں حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں آسکتے ایسے میں اپنی پارٹی کا کیا فائدہ؟

اس طرح اور بھی کئی خدشات ہیں جن کی بنا پر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سیکولر پارٹیوں سے وابستہ رہنے اور انہیں ہی مضبوط بنانے کی وکالت کرتا ہے۔ہمیں اس طبقے کی نیت پر شک نہیں، یہی خدشات 1947 میں بھی تھے،انہیں خدشات کے پیش نظر مسلمان سیکولر پارٹیوں کے غیر مشروط وفادار بنے رہے۔اس وفاداری کے تحت مسلمان پہلے سے زیادہ خوش حال اور ترقی یافتہ ہونا چاہیے تھے لیکن ستّر سالہ وفاداری کے صلے میں مسلمانوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور مسلمان اس ملک کی سب سے پس ماندہ قوم بنا دیے گئے۔گذشتہ 74 سالوں میں سیکولر پارٹیوں نے 60 سال حکومت کی ہے اس کے بعد بھی ہماری قوم دن بدن پچھڑتی گئی۔اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں؛

1- جیسا چل رہا ہے اسی میں خوش رہیں۔

2- حالات بدلنے کی کوشش کریں۔

اگر موجودہ حالات پر مطمئن ہیں تب تو کوئی بات نہیں آنکھ بند کرکے سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیتے رہیں، اگر موجودہ حالات سے ناخوش ہیں اور اپنے حالات بدلنے کی خواہش ہے تو غیر مشروط وفاداری چھوڑ کر سیاسی مول تول سیکھنا ہی پڑے گا۔

(جاری)

2 ذوالحجه 1442ھ

13 جولائی 2021 بروز منگل

 

قسط دوم

غلام مصطفےٰ نعیمی

مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

مسلم پارٹیوں کے ساتھ سیکولر پارٹیوں اور جمیعۃ کا رویہ

مولانا آزاد اور جمیعۃ کی بدولت شمالی ہند میں مسلم پارٹی کے دروازے شروع ہی میں بند کر دیے گیے تھے لیکن جنوبی ہند میں آل انڈیا مسلم لیگ نے آہستہ آہستہ اپنی جڑیں جما لی تھیں۔بعد میں متحدہ آندھرا پردیش میں اسدالدین اویسی کے دادا عبدالواحد اویسی صاحب نے مجلس اتحاد المسلمین کو از سر نو زندہ کیا۔حالانکہ یہ پارٹی 1927 میں قائم ہوئی تھی مگر تقسیم وطن کے بعد اس کے ذمہ داران پاکستان چلے گیے تھے اس لیے یہ پارٹی بھی ختم ہوگئی۔ریاست حیدرآباد کے بھارت میں ضم ہوجانے کے بعد سن 1957 میں عبدالواحد اویسی نے نئے دستور کے ساتھ اس پارٹی کو ری لانچ کیا، آہستہ آہستہ یہ پارٹی حیدرآباد میں مضبوط ہوتی گئی۔1962 میں اسدالدین کے والد سلطان صلاح الدین اویسی نے اسمبلی انتخاب جیتا اور 1984 میں حیدرآباد پارلیمانی سیٹ پر کامیابی حاصل کی، تب سے لیکر آج تک حیدرآباد پارلیمانی سیٹ پر مجلس کا قبضہ برقرار ہے۔اپنے والد کے بعد بیرسٹر اسدالدین اویسی اس سیٹ سے لگاتار چوتھی بار منتخب ہوئے ہیں۔غیر منقسم آندھرا اور اب نو تشکیل شدہ تلنگانہ میں اس پارٹی کے سات ممبران اسمبلی موجود ہیں۔یہ پارٹی ایک صوبائی پارٹی کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔اسدالدین نے پارٹی کی توسیع کرتے ہوئے مہاراشٹر اور بہار میں اسمبلی انتخاب لڑا جہاں دو اور پانچ سیٹیں حاصل ہوئیں۔اس سے قبل کشن گنج بہار کے ضمنی انتخاب میں پارلیمانی سیٹ بھی مجلس کے حصے میں آئی تھی، فی الحال حیدرآباد کے باہر اورنگ آباد سے امتیاز جلیل بھی رکن پارلیمان منتخب ہوئے ہیں۔اس پارٹی کے ساتھ کانگریس اور سیکولر پارٹیوں کا سلوک کبھی اچھا نہیں رہا آج بھی سیکولر پارٹیوں اور جمیعۃ سے تعلق رکھنے والے افراد مجلس اور اویسی پر تنقید کرنے اور بی جے پی کا ایجنٹ بتانے سے باز نہیں آتے۔سیکولر پارٹیاں کسی بھی نو زائدہ پارٹی سے سیاسی اتحاد بہ خوشی کر لیتی ہیں لیکن اویسی سے کوئی اتحاد نہیں کرنا چاہتا، کیوں کہ ہر سیکولر پارٹی مسلم قیادت کو دیکھنا پسند نہیں کرتی، افسوس اس بات کا ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مسلم دانش ور/صحافی بھی مسلم قیادت کی کردار کشی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔

_جنوبی ہند میں مسلم پارٹیاں جد وجہد کر رہی تھیں تو شمالی ہند میں بھی کانگریس اور جمیعۃ کی پالیسی کے تئیں بے چینی بڑھ رہی تھی، آخرکار ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے 1968 میں مسلم مجلس کے نام سے سیاسی پارٹی تشکیل دی ڈالی۔یہ پارٹی مسلم مجلس مشاورت کے بطن سے نکلی تھی جس کے بانی ڈاکٹر سید محمود تھے۔جو ایک زمانے میں نہرو کابینہ میں شامل رہ چکے تھے۔اس لیے ان لوگوں کا مطمح نظر مسلم قیادت کی بجائے سیکولر پارٹیوں کو مضبوط کرنا تھا، جب کہ فریدی صاحب کا ماننا تھا کہ جب تک اپنی قیادت مضبوط نہیں ہوتی تب تک سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کا جائز حق نہیں دیں گی۔ ابتداً ڈاکٹر فریدی صاحب کچھ نہ کر سکے لیکن بعد میں انہوں نے مسلم مجلس کے بینر پر 1971 میں یوپی اسمبلی انتخاب میں پانچ سیٹیں جیت کر اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔یوپی کے قدآور لیڈر اعظم خان نے بھی اپنا سیاسی سفر مسلم مجلس کے ساتھ ہی شروع کیا تھا، سن 1974 اور 1977 میں انہوں نے دو الیکشن مسلم مجلس کی جانب سے لڑے حالانکہ دونوں بار شکست ہوئی۔اس کے بعد وہ چودھری چرن سنگھ اور پھر ملائم سنگھ کے ساتھ چلے گئے۔

مسلم مجلس نے اسمبلی کے بعد سلطان پور اور الہ آباد پارلیمانی سیٹیں بھی جیتیں، اس طرح یوپی میں مسلم سیاست جڑ پکڑ رہی تھی مگر جمیعۃ اور کانگریسی افراد مسلسل اس پارٹی کے خلاف تھے، سن 1965 میں جب مجلس کا ایک اجلاس دیوبند میں مدرسہ اصغریہ کے پاس چل رہا تھا تو جمیعۃ کے اشارے پر دارالعلوم دیوبند کے طلبہ نے جلسے پر حملہ کردیا۔اسٹیج کے سارے لوگ جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے، حالانکہ اس وقت اسٹیج پر مفتی عتیق الرحمن اور ڈاکٹر فریدی جیسے کئی اہم ذمہ دار موجود تھے مگر طلبہ نے کسی کا لحاظ نہیں کیا، مائک ٹینٹ وغیرہ سب کچھ توڑ پھوڑ کر نالے میں پھینک دیا۔

اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں جب مسلم قیادت کے خلاف کانگریس/سیکولر پارٹیوں اور جمیعۃ نواز افراد نے کھلے چھپے سازشیں کیں اور ہر ممکن کوشش کی کہ مسلم قیادت پروان نہ چڑھنے پائے۔

سیکولر پارٹیوں کی بے وفائیاں

آزادی وطن کے بعد مسلمان آنکھ بند کرکے سیکولر پارٹیوں کے وفادار رہے لیکن سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو زبانی تسلیوں اور چند ایک علامتی کاموں سے ہی بہلاوا دیتی رہیں، ان علامتی کاموں میں عید وبقر عید، محرم اور عید میلادالنبی وغیرہ کی مبارکباد، عرسوں میں چادر بھیجنا، افطار پارٹی کرانا، مشاعرے کرانا اور موقع بہ موقع اردو زبان کی اہمیت پر لیکچر دینا تھا۔مسلمانوں انہیں کاموں سے خوش ہوتے رہے اور سیکولر پارٹیوں کو اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تصور کرتے رہے جب کہ سیکولرزم کے “بابائے اعظم” جواہر لعل نہرو نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کے آئینی اور مذہبی حقوق پر نقب زنی شروع کردی۔بعد میں ہر سیکولر لیڈر نے نہرو جی کی اتباع میں مسلمانوں سے یک مشت ووٹ بھی لیے اور ان کا سیاسی استحصال بھی کیا، ذیل میں نہرو سمیت سیکولر لیڈروں کی کارستانیاں ملاحظہ فرمائیں؛

🔸 برٹش حکومت نے بلا امتیاز مذہب شیڈول کاسٹ کو دفعہ 341 کے تحت ریزرویشن دیا تھا۔ نہرو حکومت نے سن 1950 میں آرڈیننس کے ذریعے دفعہ 341 پر مذہب کی قید لگا کر مسلمان اور عیسائی دلتوں کا ریزرویشن ختم کردیا، بعد میں ارتداد کا راستہ کھولنے کے لیے یہ شق بھی لگا دی کہ جو شیڈیول کاسٹ مسلمان، ہندو مذہب قبول کرے گا اسے ریزرویشن کا فائدہ ملنے لگے گا۔

🔹 کشمیر الحاق کے وقت جو معاہدہ کیا گیا اس کی رو سے کشمیر میں “وزیر اعظم اور صدر ریاست” کا فارمولہ تسلیم کیا گیا تھا جس سے کشمیر کی خود مختاری سلامت رہے لیکن نہرو نے اپنے “عزیز ترین دوست” شیخ عبد اللہ پر سازش رچنے کا الزام لگا کر گیارہ سال تک جیل میں رکھا، اس درمیان معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے “وزیر اعظم اور صدر ریاست” کے عہدوں کو وزیر اعلیٰ اور گورنر سے تبدیل کردیا گیا۔

🔹 نہرو حکومت کو بنے دو سال ہی ہوئے تھے کہ چار سو سال قدیم بابری مسجد میں سازشاً مورتیاں رکھ دی گئیں، نمازوں پر پابندی لگا دی اور پوجا شروع کرا دی گئی۔

🔸 ہندو عوام کو خوش کرنے کے لیے نہرو جی کے نواسے راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا شلانیاس کرایا۔

🔹 سال 2012 میں ملائم سنگھ نے مسلمانوں کو 18 فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بھول گئے۔

🔸 یوپی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد بستی ہے مگر سازش کے تحت یہاں سے اردو میڈیم ختم کیا گیا جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئی۔

🔹 جن علاقوں میں مسلم زمین دار تھے وہاں زمین داری قانون نافذ کرکے ان کی زمینیں ضبط کرلی گئیں لیکن جہاں ہندو زمین دار تھے ان علاقوں کو اس قانون سے مستثنی رکھا گیا۔

🔸 انتخابی حلقوں کی حد بندی میں مسلم آبادی کو کئی حصوں میں تقسیم رکھا گیا تاکہ ان کی جمہوری طاقت یکجا نہ ہوسکے۔

🔹 مسلم اکثریت والی سیٹوں کو جان بوجھ کر ایس سی، ایس ٹی ذاتوں کے لیے ریزرو کیا جاتا رہا تاکہ مسلم نمائندگی کم سے کم ہوسکے۔

🔸 مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب میں کبھی ٹکٹ نہیں دئے گئے اس طرح نمائندگی کا تناسب اور گھٹتا گیا۔

🔹 مسلمانوں کو صرف اُنہیں کے حلقوں سے ٹکٹ دیے گئے، ہندو اکثریتی علاقوں سے انہیں کبھی ٹکٹ نہیں دیا گیا اس کے برعکس سیکولر لیڈر لگاتار مسلم اکثریتی علاقوں سے لڑتے اور فتح یاب ہوتے رہے۔

🔸 مسلمانوں کو ہمیشہ غیر اہم وزارتیں دی گئیں، اہم وزارتوں سے انہیں دور رکھا گیا۔

🔹 حکومتی ملازمت میں مسلم امیدواروں کے ساتھ تعصب برتا گیا جس سے مسلمانوں کا تناسب لگاتار گھٹتا گیا۔

(جاری)

3 ذوالحجه 1442ھ

14 جولائی 2021 بروز بدھ

 

قسط سوم

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

اپنی قیادت کے فوائد

سیاست طاقت، دباؤ اور موقع کا کھیل ہے، جس کے پاس سیاسی طاقت ہوتی ہے وقت پڑنے پر اس کا سیاسی حریف بھی شراکت کو مجبور ہوتا ہے۔اس کا مشاہدہ آئے دن ہوتا رہتا ہے، کشمیر میں بی جے پی محبوبہ مفتی، یوپی میں مایاوتی اکھلیش، بہار میں لالو پرساد نتیش کمار اور مہاراشٹر میں کانگریس شو سینا اتحاد کے بارے میں کون سوچ سکتا تھا؟ مگر اقتدار کے لیے نظریاتی حریفوں کے درمیان بھی اتحاد ہوا، کیوں کہ اقتدار کے لیے سارے نظریات دھرے رہ جاتے ہیں۔سیاست میں کوئی دائمی دشمن ہوتا ہے نہ دوست، یہاں مصلحت اور مفاد سب سے اہم ہوتا ہے۔اس لیے یہ خدشہ کہ اپنی قیادت سے مسلمان سیاسی اچھوت ہوجائیں گے، ایک مفروضے سے زیادہ نہیں ہے۔مخلوط حکومتوں کے دور میں دو چار سیٹ والی پارٹیاں بھی اہم رول نبھاتی ہیں، جیسا کہ مسلسل دیکھنے میں آرہا ہے،رہا یہ سوال کہ؛

مسلم پارٹی سے ہندو ووٹر متحد ہوجائے گا !!

یہ بات اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ملک کی تمام پارٹیاں کسی ایک پارٹی میں ضم ہوجائیں اور سارے ہندو کسی ایک پارٹی کے تحت آجائیں، یہ کام عملاً ناممکن ہے۔کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کانگریس بی جے پی کے لیے خود کو ختم کر سکتی ہے، یا بی جے پی خود کو مٹا کر شو سینا میں شامل ہوسکتی ہے؟

کیا لالو پرساد ،اکھلیش یادو، شرد پوار ، نتیش کمار ، نوین پٹنائک ، کے سی آر، جگن موہن ریڈی اور چندر بابو نائڈو جیسے لیڈر اور ان کی برادریاں خود کو ختم کرنے پر آمادہ ہوجائیں گی؟

اقتدار کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے اس کے لیے انسان خونی رشتوں کو بھول جاتا ہے تو محض مسلم دشمنی میں وہ خود کو قربان کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکتے۔جب کہ مسلم پارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار میں رہنے کا راستہ بھی کھلا ہے اس لیے یہ خدشہ بھی ایک مفروضہ سے زیادہ نہیں ہے۔1941 میں ہندو مہا سبھا جیسی کٹر مسلم دشمن پارٹی نے محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے ساتھ بنگال میں مشترکہ حکومت بنائی تھی، جس کے وزیر اعظم مسلم لیگ کے فضل الحق تھے اور وزیر خزانہ جَن سَنگھ کے بانی اور بی جے پی کے سب سے بڑے رہنما شیاما پرساد مکھرجی تھے۔اس نظیر سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اقتدار کے لیے سخت ترین حریف سے بھی ہاتھ ملایا جا سکتا ہے۔

_سیاست کرنے کے دو طریقے ہیں:

1- تابع داری 2- حصہ داری

مولانا آزاد اور جمیعۃ علماے ہند کی ان تھک کوششوں کی بدولت مسلمانان ہند نے تابع داری کی سیاست کو پسند کیا،مسلمانوں کی طرح دلتوں اور پس ماندہ ذاتوں نے بھی شروعاتی دور میں تابع داری ہی کی سیاست کی، اس لیے کانگریس نہایت آرام وسکون کے ساتھ ملک پر راج کرتی رہی۔اسّی کی دہائی میں دلتوں اور پچھڑوں نے اپنی قیادت اور حصہ دارانہ سیاست کی اہمیت کو سمجھا، سن 1984 میں کانشی رام نے دلتوں کے لیے بہوجن سماج پارٹی تشکیل دی۔اس سے پہلے تک دلت سماج بھی مسلمانوں کی طرح نہرو اور کانگریس کا غیر مشروط وفادار تھا۔تابع داری کا ہی نتیجہ تھا کہ دلتوں کے مسیحا امبیڈکر کو ریزرو سیٹ پر بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔کانشی رام کی قیادت میں دلتوں نے حصے دارانہ سیاست کا آغاز کیا اور محض گیارہ سال کی محنت کے بعد ایک دلت خاتون یوپی کی وزیر اعلی بن چکی تھی۔دلتوں کی بیداری دیکھ کر پس ماندہ قوموں نے بھی انگڑائی لی اور مختلف صوبوں میں پچھڑے سماج کے کئی لیڈر ابھر کر آئے۔سن 1992 میں یوپی میں ملائم سنگھ نے سماج وادی پارٹی ، سن 1997 میں بہار میں لالو پرساد نے راشٹریہ جنتا دَل ، نتیش کمار نے 2003 میں جنتا دَل یونائٹیڈ ، دیوے گوڑا نے کرناٹک میں 1999 میں جنتا دَل سیکولر ، بیجو پٹنائک نے اڑیسہ میں 1997 میں ہی بیجو جنتا دَل بنا کر حصے دارانہ سیاست کا آغاز کیا۔اب تک یہ قومیں تابع داری والی سیاست کرتی آئی تھیں اس لیے ہمیشہ دوسروں کی دریاں ہی بچھاتے رہے لیکن حصے دارانہ سیاست نے ان ذاتوں کو وزارت اعلی اور مرکزی وزارتوں میں اہم قلم دان دلائے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ قومیں ملکی اور صوبائی سطح پر طاقت ور قومیں بن گئیں۔اس فہرست میں کیرل کی مسلم لیگ کو بھی شامل کرلیا جائے یہ پارٹی دلتوں اور پچھڑوں کی طرح وزارت اعلی تک تو نہیں پہنچی لیکن حصے دارانہ سیاست کی سوچ اور اپنی قیادت کی اہمیت جاننے کی بنا پر کانگریس جیسی پارٹی اس سے اتحاد کرنے اور صوبائی حکومت میں حصے داری دینے پر مجبور رہتی ہے۔صوبائی طاقت کی بدولت یہ پارٹی مرکز میں بھی اہم وزارت سنبھال چکی ہے۔اگر پورے صوبے کے مسلمان اس کے ساتھ ہوجائیں تو کسی موقع پر وزارت اعلی تک بھی رسائی ہوسکتی ہے۔

اپنی قیادت کی اہمیت سمجھنے کے لیے بہار کی نو زائدہ پارٹی وی آئی پی (VIP) کی مثال بہت خاص ہے۔اس پارٹی کے بانی مکیش سہنی ہیں، جو ماہی گیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔بہار میں ماہی گیروں کی تعداد پانچ فیصد ہے، اس سماج کے دم پر مکیش سہنی نے 2018 میں اپنی پارٹی بنائی اور 2019 کے انتخاب میں لالو اور کانگریس نے سہنی سے اتحاد کرتے ہوئے تین پارلیمانی سیٹیں دیں۔سہنی تینوں سیٹیں ہار گئے مگر برادری کے یک مشت ووٹ پرسینٹ کی بنا پر سیاسی پکڑ بن گئی جس کا پھل 2020 کے اسمبلی الیکشن میں ملا جب بی جے پی جیسی پارٹی نے سہنی سے اتحاد کیا اور گیارہ سیٹیں دیں۔اس بار سہنی کی پارٹی چار سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی اور آج بہار کابینہ میں شامل ہے۔

غور کریں!

اگر ماہی گیر سماج نے یہ سوچا ہوتا کہ ہم اکیلے کیا کر پائیں گے تو وہ آج بھی دریاں بچھا رہے ہوتے لیکن انہوں نے اپنی طاقت کو یکجا کیا، طاقت بنتے ہی دوسرے لوگ بھی جڑ گئے اور آج ان کی قیادت جڑ پکڑ چکی ہے۔

مسلم پارٹیوں کی ناکامی کے اسباب

آزادی کے بعد کیرل اور کشمیر کے علاوہ کہیں بھی مسلم پارٹی موجود نہیں تھی،1957 میں آندھرا پردیش میں مجلس اتحاد المسلمین دوبارہ منظر عام پر آئی، 1968 میں یوپی میں مسلم مجلس سامنے آئی۔ممبئی انڈر ورلڈ کے بے تاج بادشاہ حاجی مستان مرزا نے 1984 میں “مسلم دلت سُرکشا مہا سنگھ” بنائی۔1995 میں ڈاکٹر مسعود نے یوپی میں NLP نیشنل لوک تانترک پارٹی، سن 2001 میں مولانا توقیر رضا خان نے یوپی میں اتحاد ملت کونسل بنائی، سال 2005 میں مولانا بدرالدین اجمل نے آسام میں یو ڈی ایف اور سال 2008 میں ڈاکٹر ایوب نے یوپی میں پیس پارٹی کی تشکیل کی۔آج ایم آئی ایم، مسلم لیگ اور یو ڈی ایف ہی اپنا سیاسی وجود رکھتی ہیں باقی پارٹیاں بھولی بسری داستان بن چکی ہیں یا دوسری پارٹیوں کے لیے تشہیری ایجنسی بن کر رہ گئیں ہیں۔ان تین پارٹیوں کے علاوہ جماعت اسلامی کی ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، پیس پارٹی، علما کونسل اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا بھی پاؤں جمانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ماضی میں مسلم پارٹیوں کی ناکامی کے اسباب کیا تھے؟ اس بارے میں مختلف رائیں ہوسکتی ہیں اور صحیح حقائق ان پارٹیوں کے وابستگان ہی بتا سکتے ہیں لیکن حالات اور حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد کچھ اسباب ہماری ناقص سمجھ میں آتے ہیں، اسے سمجھنے کے لیے یہ بنیادی نکتہ ذہن میں رکھیں کہ آزادی کے بعد کشمیر اور کیرل کے علاوہ پورا ملک مسلم پارٹی سے خالی تھا، اس وقت کانگریس اور جمیعۃ نواز افراد ہی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کر رہے تھے۔ دس بیس سال کے بعد جب مسلم قیادت نے سر اٹھانا شروع کیا تو ان کے سامنے درج ذیل مشکلات تھیں:

🔹 کانگریس پورے ملک میں اپنا دبدبہ رکھتی تھی اس لیے کسی نو زائدہ پارٹی کو مسلمان نظر میں نہیں لاتے تھے۔

🔸 کانگریس ودیگر سیکولر پارٹیاں مالی/افرادی وسائل سے مالا مال تھیں جب کہ مسلم پارٹیوں کے سامنے مالی/افرادی مشکلات بہت زیادہ تھیں۔

🔹 جو مسلم نمائندے کانگریس یا دیگر پارٹیوں سے وابستہ تھے انہوں نے مسلم پارٹی کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور ان کی زبردست مخالفت کی۔

🔸 مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ مسلم پارٹی کی شد ومد سے مخالفت کیا کرتا تھا اس لیے عوامی رجحان بھی مسلم پارٹی کے مخالف بن جاتا تھا۔

🔹 ہندو مہا سبھا اور جَن سَنگھ جیسی پارٹیوں اور فسادات کا خوف دکھایا جاتا تھا۔

🔸 نمائندہ مسلم تنظیمیں سیکولرزم کی علم برداری کے جوش میں ہر مسلم پارٹی کو یکسر مسترد کر دیا کرتی تھیں۔

🔹 کانگریس ودیگر سیکولر پارٹیوں سے وابستہ مسلمان انتظامیہ وغیرہ میں رسوخ اور پہچان رکھتے تھے، عوام کے چِھٹ پُٹ کام کرا دیتے تھے اس بنا پر عوام انہیں کی ہم رائے ہوجاتے تھے۔

مذکورہ مشکلات وہ تھیں جو مسلم پارٹیوں کو بیرونی طور پر پیش آتی تھیں، جب کہ کچھ مشکلات اپنی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی بنیاد پر پیش آتی رہیں؛

🔸 ضرورت سے زیادہ جذباتی ہونا۔

🔹 عوام کے بنیادی کاموں پر زیادہ توجہ نہ دینا۔

🔸 زمینی سطح پر کارکنان نہ بنانا۔

🔹 الیکشن سے کچھ پہلے ہی سرگرم ہونا۔

🔸 بوتھ مینجمنٹ پر توجہ نہ دینا۔

🔹 کارکنان کی تربیت نہ کرنا۔

🔸 کرشمائی چہرے اور اچھے مقررین پر زیادہ منحصر رہنا۔

🔹 سیکولر پارٹیوں پر اعتبار کرکے ان لیے کیمپین چلانا۔

🔸 ٹکٹ تقسیم میں اپنے کارکنان کی بجائے دوسری پارٹیوں کے بھگوڑوں کو ترجیح دینا۔

ان وجوہات کے سبب بھی مسلم پارٹیاں مشکلات سے دو چار رہیں اور عوامی اعتماد جیتنے/بحال رکھنے میں ناکام رہیں۔جس کی بنا پر ان کی مقبولیت میں کمی آئی اور عوامی پکڑ دن بدن کمزور ہوتی گئی۔موجودہ مسلم پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ سابقہ مسلم پارٹیوں کی غلطیوں کو نگاہ میں رکھیں اور خود کو ان کمزروریوں سے بچائیں جن کی بنا پر پہلے کئی پارٹیاں ختم ہوگئیں۔

آخری بات

__مسلم پارٹی کو لیکر جو خدشات ہیں وہ اب کمزور پڑ چکے ہیں۔کانگریس کیرل میں مسلم لیگ، آسام میں بدرالدین اجمل کے ساتھ اتحاد میں ہے۔اس سے قبل آندھراپردیش میں مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ بھی کانگریس اتحاد میں رہ چکی ہے۔لیکن یہ اتحاد تبھی ممکن ہوسکا جب مسلمانوں نے اپنی قیادت پر بھروسہ کیا اگر ان علاقوں کے مسلمان اب تک کانگریس سے ہی وابستہ رہتے تو کیا یہ مسلم پارٹیاں اپنا وجود بنا سکتی تھیں؟

مسلمانوں نے کیرل اور کشمیر کے علاوہ سیکولر پارٹیوں کو پورے ستّر سال دئے، بدلے میں کیا ملا؟

اس لیے بے جا خدشات سے باہر آئیں۔مسلسل محرومیوں کی بنا پر نئی نسل نئی راہوں پر چلنا چاہتی ہے تو ایک طبقہ مسلم قیادت کی مخالفت پر آمادہ ہے، پچھلے دنوں جمیعۃ کے صدر مولانا محمود مدنی نے ایک بڑے مسلم لیڈر کا نام لیکر کہا تھا؛

“ہم انہیں ملک کے مسلمانوں کا لیڈر نہیں بننے دیں گے۔”

ذرا سوچیں!

یہ بیان کس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے؟ ملک کا مسلمان نہرو سے ملائم تک غیر مسلم لیڈروں اپنا رہنما مانتا آیا تو کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن آج ایک مسلم لیڈر کی مقبولیت بڑھ رہی ہے تو آپ کو کس بات کی تکلیف ہورہی ہے؟

جمیعۃ کے سیاسی فلسفے پر ملت اسلامیہ نے پورے ستّر سال آنکھ بند کرکے عمل کیا، لیکن بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا، چاہیے تو یہ تھا کہ جمیعۃ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتی اور مسلم قیادت کی راہیں ہموار کرتی، الٹا پروان چڑھتی قیادت کو روکنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔آخر یہ جارحانہ رویہ اور تلخ تیور کس کے اشارے پر ہیں؟

جمیعۃ کی طرح ہی بہت سارے صحافی، دانش ور اور تنظیمی افراد بھی مسلم پارٹیوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ معروضی انداز میں ملکی صورت حال اور چلی آرہی پالیسی کا جائزہ لیں پھر کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔نئی نسل تبدیلی کی بات کر رہی ہے تو جمیعۃ علماے ہند اور اس سے وابستہ افراد مسلم سیاست کی مخالفت نہ کریں، کیوں کہ ان کا فلسفہ عملی طور پر ناکام ہوچکا ہے اور مسلمانوں کو اس کی بڑی قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمت ودانائی کے ساتھ اپنی قیادت کو مضبوط کیا جائے تاکہ محرومیوں کا دور ختم ہو اور قوم پھر سے عروج وارتقا کا سفر طے کر سکے۔

4 ذوالحجه 1442ھ

15 جولائی 2021 بروز جمعرات