زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں!
_____
تحریر: محمد شفاء المصطفیٰ شفا مصباحی۔
مدینۃ العلما باڑا شریف، سیتامڑھی۔
___
اگر کبھی تنہائی میں بیٹھ کر ہم اپنی عظمت رفتہ پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر موجودہ صورت حال سے اس کا موازنہ کرتے ہیں، تو آنکھیں اشک بار ہونے لگتی ہیں، کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور پاؤں تلے سے زمین کھسکنے لگتی ہے؛ کہ پہلے ہم کیا تھے اور آج کیا ہو چکے ہیں۔
کل تک ہر چہار دانگ عالم میں ہماری ہی عظمت و شوکت کا شہرہ تھا۔ ہر میدان میں ہماری ہی فتح و نصرت کا جھنڈا لہراتا تھا اور ہر محاذ پر ہمارا ہی قبضہ ہوتا تھا۔ ہم تعداد میں کم ضرور تھے، مگر پھر بھی ہمارا اثر و رسوخ قائم تھا۔ ہم ایسے تھے کہ صرف ہمارے نام سن کر دشمنوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں اور بلا مقابلہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانے جانے ہی اپنی عافیت تصور کرتے تھے۔ وہ ہم ہی تھے کہ تین سو تیرہ ہوتے ہوئے بھی ہزاروں مسلح شہ سواروں کو شکست و ہزیمت کے قعر مذلت میں ڈھکیل دیا تھا۔ وہ ہماری ہی جماعت تھی کہ جس نے ایک چھوٹی سی تعداد ہوتے ہوئے بھی بڑے بڑے ملکوں پر اپنی فتح و کامرانی کا جھنڈا نصب کیا تھا اور ایک مدت مدید تک پوری دنیا پر حکمرانی کی تھی۔
لیکن صد حیف! کہ اچانک اس کی شامتِ اعمال سے اس کے انوارِ عظمت پر ایسی خوفناک تاریکی چھا گئی جس کی موہوم امید بھی نہ تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سارا عروج زوال کے نذر ہوگیا۔کسی زمانے میں جس قوم کی عظمت و شوکت اور تہذیب و ثقافت کے کلمے پڑھے جاتے تھے آج اس کے مرثیے پڑھے جا رہے ہیں۔آج عالمی و ملکی سطح پر امت مسلمہ کے جو شکستہ و دل خراش حالات ہیں وہ کسی بھی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ آج ہر چہار جانب سے ہم پر پیہم یلغار ہو رہے ہیں اور مسلسل ہم پر مصائب و آلام کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔کبھی ہمارے مذہبی شعائر پر شب خون مارا جاتا ہے تو کبھی ہمارے عائلی قوانین میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے۔اور اب تو آئے دن ہمارے قرآن کریم اور ہمارے پیغمبر اسلام حضور جان جاناں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شانِ رفیع میں بھی ہرزہ سرائیاں ہو رہی ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کا نہ تو عروج اتفاقی ہوتا ہے اور نہ زوال حادثاتی، بلکہ عروج بھی فطرت کے مستحکم قوانین کا پابند ہوتا ہے اور زوال بھی قدرت کے ازلی اصولوں کے تحت، کیوں کہ عروج و زوال یہ دونوں قدرت کا ایک اٹل قانون اور غیر متزلزل نظام ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو بھی عروج و ارتقا کی دولت سے سرفراز فرمایا، جب تک وہ قوم اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوشاں رہی اور اپنے رب کا شکر ادا کرتی رہی اس وقت تک وہ نعمت اس کے پاس رہی اور جیسے ہی وہ اپنے فرائضِ منصبی سے غافل ہوئی، رب تبارک وتعالیٰ نے اس سے اپنا بخشا ہوا اعزاز چھین لیا۔ اس تاریخی شواہد کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو آج ہمارے زوال و انحطاط کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم بھی آج اپنے فرائض منصبی سے بالکل غافل ہو چکے ہیں اور اپنے رب تعالی کو بھلا بیٹھے ہیں، اس لیے اللہ رب العزت نے ہم سے اپنا بخشا ہوا اعزاز چھین لیا ہے۔ لہذا آج ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری اس ذلت و رسوائی اور بے وقعتی کی اصل اور بنیادی وجہ، اپنے فرائض منصبی سے چشم پوشی اور ذات باری تعالیٰ اور ذات رسول مقبول ﷺ سے ہماری دوری و مہجوری ہے۔ اس لیے اگر ہمیں پھر سے سرخرو ہونا ہے تو سب سے پہلے ذات باری تعالیٰ اور اس کے حبیب لبیب ﷺ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا تبھی جاکر ہم شادکام و فائز المرام ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں! تمام تر مادی وسائل کے باوجود ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب اللہ رب العزت کی غیبی نصرت و حمایت شامل حال ہوگی اور جب مدینے کے تاجدار نظر کرم فرمائیں گے۔ کیوں کہ ہمارا تکیہ ان مادی اسباب و وسائل پر نہیں بلکہ ہمارا کلی اعتماد نصرت خداوندی اور لطفِ مصطفوی پر ہے۔ قائد اہل سنت رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے بڑے اچھوتے انداز میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے، آپ فرماتے ہیں:
”یہ عقیدہ ذہن نشیں کر لینا چاہیے کہ ہماری فتح و کامرانی کا سررشتہ روے زمین کی باطل قوتوں سے منسلک نہیں ہے، بلکہ اس قادر و توانا خداوند کی لا محدود قدرت سے وابستہ ہے جس پر آج تک کوئی فتح حاصل نہیں کر سکا ہے۔
جب تک ہمارا ذہن تاریخ کے اس سانچے میں نہیں ڈھل جاتا جس کا آغاز میدان بدر سے ہوتا ہے اس وقت تک اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانا ہمارے لیے قطعاً ناممکن ہے۔ اسلام کی معنوی سر چشموں سے الگ رہ کر جینے کا انجام ہم نے دیکھ لیا اب ایک ثابت شدہ حقیقت کی آزمائش قطعاً فعل عبث ہے۔“
[ فغان درویش، ص: 82، ادارہ فکر اسلامی، دہلی]
اور ذات رسول ﷺ سے وابستگی کے فوائد اور عدم وابستگی کے خوفناک نتائج کو انھوں نے جس الفت و محبت اور درد و کرب بھرے لہجے میں بیان کیا ہے، یہ انھیں کے قلم کا حصہ ہے۔ فرماتے ہیں:
” خدا سلامت رکھے اس جذبۂ غلامی کو جس نشے سے مخمور ہوکر ہم گنبد خضرا کے شہریار کو اپنا آقا کہتے ہیں اور ہمارے دل کی دنیا جھوم اٹھتی ہے۔یہی جذبہ جب تک سلامت تھا دنیا کی سروری ہمارے قدموں کی ٹھوکر میں تھی اور ہم میر کارواں کہلاتے تھے اور جب سے عقیدہ و فکر کے الحاد نے حبّ رسول کا نشیمن تاراج کر دیا اور سرور مجتبیٰ کی عظمت خداداد سے انحراف کی جسارت پیدا ہوئی قدرت نے ہمارے ہاتھوں سے بخشا ہوا اعزاز چھین لیا۔ پہلے ہمارا جہاں نقش قدم تھا اب وہاں ماتھا ٹیکنے کی بھی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ خداے قدیر اپنے محبوب کے صدقے میں اپنی رحمتوں کا اعزاز ہمیں واپس کردے اور پھر ایک بار ہم اسلام کا پرچم کائنات گیتی کے بحر و بر پر لہرائیں۔“
( فغان درویش، ص: 80)
امت مسلمہ کے زوال و انحطاط کے اسباب و وجوہات میں ایک زمانے سے صرف مادی اسباب وسائل کی عدم فراہمی اور سیم و زر کی قلت کا شکوہ کیا جاتا رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مادی وسائل سے زیادہ جس چیز سے نقصان ہوا ہے وہ ہے ہمارے عزم و حوصلے کی ناپختگی، فکر و نظر کی کوتاہی، اپنے فرائض منصبی سے چشم پوشی اور ذات باری تعالٰی و ذات رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری و مہجوری۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے برسوں پہلے ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا۔
سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں۔
لہذا آج ہمیں دیگر اسباب و وسائل کے ساتھ ساتھ ذات باری تعالٰی اور ذات رسول پاک ﷺ سے حد درجہ والہانہ محبت و عقیدت رکھنا ہوگا تاکہ ہمیں دین و دنیا دونوں جگہ سرخروئی حاصل ہو۔
یقیناً آج حالات بہت نازک ہیں لیکن یاد رہے کہ اس طرح کے قومی و ملی مسائل کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، ہر دور میں ہر قوم اور جماعت کے کچھ حساس مسائل و معاملات رہے ہیں، لیکن باشعور قوموں نے غفلت و تساہلی سے دور رہ کر منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا۔ مگر ایک ہم ہیں کہ ایک زمانے تک پیہم ہمارے ساتھ مسائل پیدا ہوتے رہے، لیکن ہمیشہ ہم نے گردشِ ایام کے پیدا کردہ مسائل سے آنکھیں چرائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اپنی حیثیت و وقعت کھو بیٹھے اور ایک پس ماندہ و غفلت شعار قوم کی حیثیت سے متعارف ہوگئے۔ لہذا آج ہمیں نہایت گرم جوشی اور جذبہ فراواں کے ساتھ مصروف عمل ہونا ہوگا اور ہر طرح کے آلات و اسباب کا سہارا لینا ہوگا تاکہ ہمارے عروج و ارتقا کی راہیں پھر سے ہموار ہوں اور ہماری عظمت رفتہ کی بازیابی کا کچھ سامان ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی کوتاہیوں کو درگذر فرماکر پھر سے وہ اعزاز بخش دے تاکہ پھر ایک بار ہر طرف اسلام کا پرچم لہرا سکے۔آمین ثم آمین۔