ابن ماجہ یا ابن ماجۃ ؟

حدیث کے مشہور امام ، کتب ستہ کے مصنفین میں سے ایک ، حضرت محمد بن یزید بن ماجہ قزوینی{م273ھ } رحمۃ اللہ علیہ کے نسب میں واقع لفظ “ابن ماجہ” کے آخر میں کچھ لوگ “تائے تانیث” سمجھتے ہیں ، جب کہ یہ “ہائے ساکنہ” ہے ، تائے تانیث نہیں جو حالت وقف میں “ھا” سے بدل جاتی ہے ، اس لیے کہ تائے تانیث تو عربی کلمات کے آخر میں آتی ہے ، اور “ماجہ” عربی کلمہ نہیں کہ اس میں تائے تانیث آئے، مشہور مؤرخ علامہ ابو العباس ابن خَلِّكان(خائے مفتوح، لام مشدد مکسور) (م681ه‍) “وفیات الأعيان بأنباء أبناء الزمان ” میں لکھتے ہیں : “ماجه بفتح الميم والجيم وبينهما ألف، وفي الآخر هاء ساكنة”

ايسے ہی ابن مندہ ، ابن داسہ وغیرہ میں بھی ہائے ساکنہ ہے۔

یوں ہی مشہور نحوی( ابن جنی) کے آخر میں یائے نسبتی نہیں کہ “جن” کی جانب منسوب ہو کر ” جنی” اسم منسوب ہو ، بلکہ “جنی” رومی لفظ “کنی” (کاف کے کسرے ، نون مشدد ، یائے ساکن کے ساتھ) کا معرب( تعریب کا اسم مفعول : عربی بنانا ہوا) ہے۔

لہذا “ابن جنی” میں “جنی” کے آخر میں مضاف الیہ ہونے کی وجہ کسرے والی تنوین نہیں ، بلکہ سکون رہے گا۔

 محمد اسلم نبیل ازہری

١٣/ ذو الحجہ، ١٤٤٢ھ

٢٤/جولائی، ٢٠٢١ء