🌹صدر الافاضل کا مناظرانہ مقام🌹*

(عرس نعیمی 18 ذی الحجہ پرخصوصی تحریر)

✍️تحریر :نازش المدنی مرادآبادی

مفسر قرآن، صاحب خزائن العرفان، امام الہند، صدر الافاضل، فخر الاماثل حضرت علامہ مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ العزیز بر صغیر ہند وپاک کی ان کثیر الجہات اور جامع الصفات شخصیات میں سے ہیں، جن کی خدمات دینیہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ کوگوناگوں اوصاف وکمالات سے نوازا تھا۔ آپ علیہ الرحمہ کو جہاں علوم وفنون میں درک حاصل تھا۔ وہیں آپ سیاسی بصیرت میں بھی ید طولی رکھتے تھے۔اور میدان مناظرہ میں تو آپ منفرد المثال تھے اور انتہائی درجہ کا کمال حاصل تھا۔ عیسائی ،آریہ،روافض،خوارج، قادیانی، غیر مقلدین، اہل حدیث، دیابنہ ووہابیہ وغیرہ فرقہاے ضالہ سے آپ نے متعدد مناظرے کیے اور بفضل اللہ تعالیٰ ہر بار آپ کامیاب وکامران ہوئے اور مد مقابل کو ایسی شکست دی کہ پھر وہ کبھی آپ کے سامنے آنے کی ہمت نہ کر سکا۔ آپ کے مناظرانہ مقام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کی عبقری شخصیت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ آپ پر اس قدر اعتماد فرماتے تھے کہ جہاں کہیں بھی مناظرہ ہوتا تو آپ صدر الافاضل علیہ الرحمہ کو بھیجتے تھے۔ایک مرتبہ جناب احمد حسن صاحب نے نجیب آباد سے اعلیٰ حضرت کو یہ تار دیا کہ اشرف علی یہاں آیا ہوا ہے۔ ہم نے مناظرے کی دعوت اسے دی ہوئی ہے۔ آپ کسی مناظرکو یہاں بھیجیے۔آپ نے صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی اور حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خان علیہما الرحمہ کو روانہ کیا اور فرمایا مرادآباد اتر کر صدر الافاضل کو اپنے ہمراہ نجیب آباد لے جاؤ اور صدر الافاضل کو ضرور لے جانا۔ حجۃ الاسلام نے بریلی شریف سے تار دیا اور مرادآباد سے حضرت کو لے کر نجیب آباد پہنچے۔ وہاں جاکر تھانوی صاحب کو خط لکھا۔اشرف علی تھانوی صاحب نے صبح جواب دینے کا وعدہ کیا مگر راتوں رات نجیب آباد سے بھاگ نکلا۔ دوسرے دن جب صبح کو معلوم کیا تو پتہ چلا کہ وہ فرار ہو چکا ہے، اس طرح یہ حضرات جشن فتح منا کر واپس ہوئے۔(حیات صدر الافاضل ص:31،30)

اس واقعہ سے جہاں صدر الافاضل کی مناظرانہ ہیبت معلوم ہوئی کہ مد مقابل آپ کی جلالت علمی سے دم دبا کر بھاگا، وہیں یہ بھی بخوبی معلوم ہوا کہ حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا آپ پر کس قدر اعتماد تھا کہ جاتے وقت حجۃ الاسلام اور صدر الشریعہ کو بتاکید صدر الافاضل کو اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیا۔

زمانہ طالب علمی کی بات ہے۔محلہ گل شہید قبرستان کے پاس ایک آریہ رہتا تھا۔ جو شخص بھی فاتحہ پڑھنے قبرستان جاتا اسکو بلا کر بہکاتا کہ روح تو دوسرے قالب میں پہنچ گئی ہے، بے کار فاتحہ پڑھنے آتے ہو، اس سے کوئی فائدہ نہیں، اس طرح وہ جاہل لوگوں کو بہکاتا۔حاجی محمد اشرف صاحب نے آکر حضور صدر الافاضل کو یہ ساری صورت حال سنائی اور آپ کو لے کر قبرستان فاتحہ پڑھنے جا پہنچے۔ حسب عادت اس نے حضرت کو بھی بلایا اور جس طرح لوگوں کو بہکانے کے لیے تقریریں کرتا تھا،تقریر شروع کر دی۔ حضرت نے روح کے متعلق اس سے سوالات کیے وہ لاجواب ہوا اور بہت گھبرایا۔ پھر حضرت نے تناسخ کے بطلان پر وہ دلیلیں قائم فرمائیں کہ وہ حیران ہوکر کہنے لگا میں نے آج تک ایسا محقق فلسفی نہیں دیکھا۔اور بالآخر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ میں اب فاتحہ پڑھنے سے کسی کو منع نہیں کروں گا میری تسلی ہو گئی۔(ایضاً ص:27)

ایک مرتبہ رام چندر نامی پنڈت سے بریلی شریف میں گفتگو ہوئی تو اس نے کہا آپ مجھ سے کیا بحث کریں گے مجھے تمہاری کتاب(قرآن عظیم) کے پندرہ پارے یاد ہیں۔ آپ میرے وید کے صرف پندرہ ورق ہی سنا دیجیے۔حضرت صدر الافاضل فرمانے لگے: پنڈٹ جی! یہی تو میری کتاب کا اعجاز ہے کہ دشمن کے سینے میں بھی اتر گئی۔تمہاری کتاب کا یہ حال ہے کہ خود تمہیں اس کے پندرہ ورق یاد نہیں ہیں۔ اس سے قرآن پاک کی صداقت کا پتہ چلتا ہے۔اس پر پنڈٹ جی بڑے خفیف ہوئے اور جلسہ برخاست کر دیا۔(ایضاً ص:11

مرادآباد بازار چوک میں آریہ مبلغ روزانہ اسلام کے خلاف تقریریں کرتے تھے۔حضرت قلعہ والی مسجد سے جمعہ پڑھا کر واپس آ رہے تھے کہ دیکھا آریہ اعتراض کر رہا ہے اور شاہی مدرسہ کے ایک مدرس مولوی قدرت اللہ جواب دے رہے ہیں۔ اور جب مکمل جواب نہ دے سکے تو عاجز ہو کر فرار ہو گئے۔اور آریہ نے تالی بجا دی کہ مولوی صاحب عاجز ہو کر بھاگ گئے۔میرے اعتراض کا جواب نہ دے سکے۔اس پر صدر الافاضل نے فرمایا: پنڈت جی! اعتراض کیا ہے مجھے بتائیے میں جواب دیتا ہوں۔ اس نے بڑی تعلی سے کہا کہ آپ کے مولوی صاحب جواب نہ دے سکے تو آپ کیا جواب دیں گے۔ آپ نے کہا آپ اعتراض تو کیجیے پھر دیکھیے کہ تسلی بخش جواب آپ کو ملتا ہے کہ نہیں! اس نے اعتراض کیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا ہوتا ہے اور تمہارے پیغمبر نے اپنے منہ بولے بیٹے زید کی بیوی سے نکاح

کر لیا تھا حضور صدر الافاضل علیہ الرحمہ نے دلائل وبراہین سے ثابت کیا کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے حقیقت نہیں بدلتی اور حقیقی بیٹا نہیں ہوتا۔اور حقیقت میں بیٹا وہ ہوتا ہے جو کسی کے نطفہ سے پیدا ہو۔مگر وہ پنڈت نہ مانا اور اس نے کہا میں نہیں مانتا۔آپ نے فرمایا میں تمہیں ابھی منوائے دیتا ہوں۔ مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا “یہ پنڈت میرا بیٹا ہے لہذا پنڈت جی کے قول کے مطابق یہ میرے حقیقی بیٹے ہو گئے اور حقیقی بیٹے کی بیوی باپ پر حرام اور اس کی ماں اس پر حلال ہوتی ہے۔تو ان کی ماں میرے لیے حلال ہو گئی۔پنڈٹ یہ سن کر بوکھلا گیا اور کہنے لگا تم مجھے گالی دیتے ہو۔صدر الافاضل نے فرمایا: میرا مدعا ثابت ہوا تو خود اس کو گالی تسلیم کرتا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا۔پنڈت مبہوت ہو کر کہنے لگا پہلے تمہارا مولوی چلا گیا تھا اب میں چلتا ہوں۔(ایضاً ص:11،10)

متھرا اور آگرہ کے اطراف میں شردھانندنے جب فتنہ ارتداد شروع کیا تو حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ نے اس کو مناظرہ کی دعوت دی۔ اس نے قبول کر لیا آپ دہلی پہنچے تو وہ بریلی جا پہنچا۔ پھر بریلی سے لکھنؤ اور پھر پٹنہ اور کلکتہ جا پہنچا۔ حضرت بھی اس کا تعاقب کرتے ہوئے کلکتہ جا پہنچے۔تو اس نے مناظرہ کرنے سے صاف منع کر دیا۔اس طرح خوف زدہ ہو کر بالآخر اس نے اپنی جان چھڑائی۔(ایضاً ص:11)

غرض یہ کہ جہاں کہیں بھی صدر الافاضل کو مناظرہ کی دعوت دی جاتی یا مناظرہ کی ضرورت پیش آتی آپ علیہ الرحمہ فوراً وہاں جاکر احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ سرانجام دیتے۔ اور بفضل مولیٰ مد مقابل کو شکست فاش دیتے۔