کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 19 رکوع 15 سورہ الشعراء آیت نمبر 192 تا 227
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۹۲)
اور بےشک یہ قرآن رب العالمین کا اُتارا ہوا ہے
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ(۱۹۳)
اُسے روح الا مین لے کر اُترا(ف۱۶۲)
(ف162)
روح الامین سے حضرت جبریل مراد ہیں جو وحی کے امین ہیں ۔
عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ(۱۹۴)
تمہارے دل پر (ف۱۶۳) کہ تم ڈر سناؤ
(ف163)
تاکہ آپ اسے محفوظ رکھیں اور سمجھیں اور نہ بھولیں ۔ دل کی تخصیص اس لئے ہے کہ درحقیقت وہی مخاطب ہے اور تمیز و عقل و اختیار کا مقام بھی وہی ہے ، تمام اعضاء اس کے مسخّر و مطیع ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ دل کے درست ہونے سے تمام بدن درست ہو جاتا ہے اور اس کے خراب ہونے سے سب جسم خراب اور فرح و سرور و رنج و غم کا مقام دل ہی ہے جب دل کو خوشی ہوتی ہے تمام اعضاء پر اس کا اثر پڑتا ہے تو وہ مثل رئیس کے ہے وہی موضع ہے عقل کا تو امیرِ مطلق ہوا اور تکلیف جو عقل و فہم کے ساتھ مشروط ہے اسی کی طرف راجع ہوئی ۔
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍؕ(۱۹۵)
روشن عربی زبان میں
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ(۱۹۶)
اور بےشک اس کا چرچا اگلی کتابوں میں ہے (ف۱۶۴)
(ف164)
اِنَّہ، کی ضمیر کا مرجع اگر قرآن ہو تو اس کے معنٰی یہ ہوں گے کہ اس کا ذکر تمام کتبِ سماویہ میں ہے اور اگر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ضمیر راجع ہو تو معنٰی یہ ہوں گے کہ اگلی کتابوں میں آپ کی نعمت و صفت مذکور ہے ۔
اَوَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ اٰیَةً اَنْ یَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۱۹۷)
اور کیا یہ اُن کے لیے نشانی نہ تھی (ف۱۶۵) کہ اس نبی کو جانتے ہیں بنی اسرائیل کے عالم (ف۱۶۶)
(ف165)
سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقِ نُبوّت و رسالت پر ۔
(ف166)
اپنی کتابوں سے اور لوگوں کو خبریں دیتے ہیں ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اہلِ مکہ نے یہودِ مدینہ کے پاس اپنے معتمدین کو یہ دریافت کرنے بھیجا کہ کیا نبیٔ آخر الزمان سیدِ کائنات محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ان کی کتابوں میں کوئی خبر ہے ؟ اس کا جواب عُلَماءِ یہود نے یہ دیا کہ یہی ان کا زمانہ ہے اور ان کی نعت و صفت توریت میں موجود ہے ۔ عُلَماءِ یہود میں سے حضرت عبداللہ ابن سلام اور ابنِ یامین اور ثعلبہ اور اسد اور اُسید یہ حضرات جنہوں نے توریت میں حضور کے اوصاف پڑھے تھے حضور پر ایمان لائے ۔
وَ لَوْ نَزَّلْنٰهُ عَلٰى بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَۙ(۱۹۸)
اور اگر ہم اُسے کسی غیر عربی شخص پر اتارتے
فَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَؕ(۱۹۹)
کہ وہ اُنہیں پڑھ سناتا جب بھی اس پر ایمان نہ لاتے (ف۱۶۷)
(ف167)
معنٰی یہ ہیں کہ ہم نے یہ قرآنِ کریم ایک فصیح بلیغ عربی نبی پر اُتارا جس کی فصاحت اہلِ عرب کو مسلّم ہے اور وہ جانتے ہیں کہ قرآنِ کریم مُعجِز ہے اور اس کی مثل ایک سورت بنانے سے بھی تمام دنیا عاجز ہے علاوہ بریں عُلَماءِ اہلِ کتاب کا اتفاق ہے کہ اس کے نُزول سے قبل اس کے نازِل ہونے کی بشارت اور اس نبی کی صفت ان کی کتابوں میں انہیں مل چکی ہے ، اس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ نبی اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور یہ کتاب اس کی نازِل فرمائی ہوئی ہے اور کُفّار جو طرح طرح کی بیہودہ باتیں اس کتاب کے متعلق کہتے ہیں سب باطل ہیں اور خود کُفار بھی متحیّر ہیں کہ اس کے خلاف کیا بات کہیں ، اس لئے کبھی اس کو پہلوں کی داستانیں کہتے ہیں ، کبھی شعر ، کبھی سحر اور کبھی یہ کہ معاذ اللہ اس کو خود سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنا لیا ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف اس کی غلط نسبت کر دی ہے اس طرح کے بیہودہ اعتراض معانِد ہر حال میں کر سکتا ہے حتٰی کہ اگر بالفرض یہ قرآن کسی غیر عربی شخص پر نازِل کیا جاتا جو عربی کی مہارت نہ رکھتا اور باوجود اس کے وہ ایسا مُعجِز قرآن پڑھ کر سُناتا جب بھی لوگ اسی طرح کُفر کرتے جس طرح انہوں نے اب کُفر و انکار کیا کیونکہ ان کے کُفر و انکار کا باعث عناد ہے ۔
كَذٰلِكَ سَلَكْنٰهُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَؕ(۲۰۰)
ہم نے یونہی جھٹلانا پیرا دیا(پیوست کردیا) ہے مجرموں کے دلوں میں(ف۱۶۸)
(ف168)
یعنی ان کافِروں کے جن کا کُفر اختیار کرنا اور اس پر مُصِر رہنا ہمارے علم میں ہے تو ان کے لئے ہدایت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے کسی حال میں وہ کُفر سے پلٹنے والے نہیں ۔
لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَۙ(۲۰۱)
وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ دیکھیں دردناک عذاب
فَیَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۲۰۲)
تو وہ اچانک ان پر آجائے گا اور انہیں خبر نہ ہوگی
فَیَقُوْلُوْا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَؕ(۲۰۳)
تو کہیں گے کیا ہمیں کچھ مہلت ملے گی (ف۱۶۹)
(ف169)
تاکہ ہم ایمان لائیں اور تصدیق کریں لیکن اس وقت مہلت نہ ملے گی جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کُفّار کو اس عذاب کی خبر دی تو براہِ تمسخُر و استہزاء کہنے لگے کہ یہ عذاب کب آئے گا ؟ اس پر اللہ تبارک وتعالٰی ارشاد فرماتا ہے ۔
اَفَبِعَذَابِنَا یَسْتَعْجِلُوْنَ(۲۰۴)
تو کیا ہمارے عذاب کی جلدی کرتے ہیں
اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ(۲۰۵)
بھلا دیکھو تو اگر کچھ برس ہم انہیں برتنے دیں (ف۱۷۰)
(ف170)
اور فوراً ہلاک نہ کر دیں ۔
ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ(۲۰۶)
پھر آئے اُن پروہ جس کا وہ وعدہ دئیے جاتے ہیں (ف۱۷۱)
(ف171)
یعنی عذابِ الٰہی ۔
مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَؕ(۲۰۷)
تو کیا کام آئے گا اُن کے وہ جو برتتے تھے (ف۱۷۲)
(ف172)
یعنی دنیا کی زندگانی اور اس کا عیش خواہ طویل بھی ہو لیکن نہ وہ عذاب کو دفع کر سکے گا نہ اس کی شدت کم کر سکے گا ۔
وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَﲨ (۲۰۸)
اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہ کی جسے ڈر سنانے والے نہ ہوں
ذِكْرٰى ﱡ وَ مَا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۲۰۹)
نصیحت کے لیے اور ہم ظلم نہیں کرتے (ف۱۷۳)
(ف173)
پہلے حُجّت قائم کر دیتے ہیں ڈر سنانے والوں کو بھیج دیتے ہیں اس کے بعد بھی جو لوگ راہ پر نہیں آتے اور حق کو قبول نہیں کرتے ان پر عذاب کرتے ہیں ۔
وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّیٰطِیْنُ(۲۱۰)
او راس قرآن کو لے کر شیطان نہ اُترے (ف۱۷۴)
(ف174)
اس میں کُفّار کا رد ہے جو کہتے تھے کہ جس طرح شیاطین کاہنوں کے پاس آسمانی خبریں لاتے ہیں اسی طرح معاذ اللہ حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قرآن لاتے ہیں ۔ اس آیت میں ان کے اس خیال کو باطل کر دیا کہ یہ غلط ہے ۔
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَ مَا یَسْتَطِیْعُوْنَؕ(۲۱۱)
اوروہ اس قابل نہیں(ف۱۷۵)نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں(ف۱۷۶)
(ف175)
کہ قرآن لائیں ۔
(ف176)
کیونکہ یہ ان کے مقدور سے باہر ہے ۔
اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَؕ(۲۱۲)
وہ تو سننے کی جگہ سے دور کردئیے گئے ہیں (ف۱۷۷)
(ف177)
یعنی انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی طرف جو وحی ہوتی ہے اس کو اللہ تعالٰی نے محفوظ کر دیا جب تک کہ فرشتہ اس کو بارگاہِ رسالت میں پہنچائے اس سے پہلے شیاطین اس کو نہیں سن سکتے اس کے بعد اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے فرماتا ہے ۔
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَۚ(۲۱۳)
تو تواللہ کے سوا دوسرا خدا نہ پوج کہ تجھ پر عذاب ہوگا
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ(۲۱۴)
اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ (ف۱۷۸)
(ف178)
حضور کے قریب کے رشتہ دار نبی ہاشم اور بنی مطلب ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اعلان کے ساتھ انذار فرمایا اور خدا کا خوف دلایا جیسا کہ احادیثِ صحیحہ میں وارد ہے ۔
وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ(۲۱۵)
اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ (ف۱۷۹) اپنے پیرو (تابع)مسلمانوں کے لیے (ف۱۸۰)
(ف179)
یعنی لطف و کرم فرماؤ ۔
(ف180)
جو صدق و اخلاص سے آپ پر ایمان لائیں خواہ وہ آپ سے قرابت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ۔
فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَۚ(۲۱۶)
تو اگر وہ تمہارا حکم نہ مانیں تو فرمادو میں تمہارے کاموں سے بے علاقہ(لا تعلق) ہوں
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِۙ(۲۱۷)
اور اس پر بھروسہ کرو جو عزت والا مِہر والا ہے (ف۱۸۱)
(ف181)
یعنی اللہ تعالٰی ، تم اپنے تمام کام اس کو تفویض کرو ۔
الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ(۲۱۸)
جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو (ف۱۸۲)
(ف182)
نماز کے لئے یا دعا کے لئے یا ہر اس مقام پر جہاں تم ہو ۔
وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ(۲۱۹)
اور نمازیوں میں تمہارے دورے کو (ف۱۸۳)
(ف183)
جب تم اپنے تہجُّد پڑھنے والے اصحاب کے احوال ملاحظہ فرمانے کے لئے شب کو دورہ کرتے ہو ۔ بعض مفسِّرین نے کہا معنٰی یہ ہیں کہ جب تم امام ہو کر نماز پڑھاتے ہو اور قیام و رکوع و سجود و قعود میں گزرتے ہو ۔ بعض مفسِّرین نے کہا معنٰی یہ ہیں کہ وہ آپ کی گردشِ چشم کو دیکھتا ہے نمازوں میں کیونکہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پس و پیش یکساں ملاحظہ فرماتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے بخدا مجھ پر تمہارا خشوع و رکوع مخفی نہیں میں تمہیں اپنے پسِ پشت دیکھتا ہوں ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس آیت میں ساجدین سے مؤمنین مراد ہیں اور معنٰی یہ ہیں کہ زمانۂ حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے لے کر حضرت عبداللہ و آمنہ خاتون تک مؤمنین کی اصلاب و ارحام میں آپ کے دورے کو ملاحظہ فرماتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ آپ کے تمام اصول آباء و اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب مؤمن ہیں ۔ ( مدارک و جمل وغیرہ)
اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۲۲۰)
بےشک وہی سُنتا جانتا ہے (ف۱۸۴)
(ف184)
تمہارے قول و عمل اور تمہاری نیت کو اس کے بعد اللہ تعالٰی ان مشرکوں کے جواب میں جو کہتے تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شیطان اترتے ہیں یہ ارشاد فرماتا ہے ۔
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ(۲۲۱)
کیا میں تمہیں بتادوں کہ کس پر اُترتے ہیں شیطان
تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲)
اُترتے ہیں ہربڑے بہتان والے گناہگار پر (ف۱۸۵)
(ف185)
مثل مسیلمہ وغیرہ کاہنوں کے ۔
یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ(۲۲۳)
شیطان اپنی سنی ہوئی (ف۱۸۶) اُن پر ڈالتے ہیں اور اُن میں اکثر جھوٹے ہیں (ف۱۸۷)
(ف186)
جو انہوں نے ملائکہ سے سُنی ہوتی ہے ۔
(ف187)
کیونکہ وہ فرشتوں سے سُنی ہوئی باتوں میں اپنی طرف سے بہت جھوٹ ملا دیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک بات سنتے ہیں تو سو جھوٹ اس کے ساتھ ملاتے ہیں اور یہ بھی اس وقت تک تھا جب تک کہ وہ آسمان پر پہنچنے سے روکے نہ گئے تھے ۔
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ(۲۲۴)
اور شاعروں کی پیرو ی گمراہ کرتے ہیں(ف۱۸۸)
(ف188)
ان کے اشعار میں کہ ان کو پڑھتے ہیں رواج دیتے ہیں باوجود یکہ وہ اشعار کذب و باطل ہوتے ہیں ۔
شانِ نُزول : یہ آیت شعراءِ کُفّار کے حق میں نازِل ہوئی جو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو میں شعر کہتے تھے اور کہتے تھے کہ جیسا محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں ایسا ہم بھی کہہ لیتے ہیں اور ان کی قوم کے گمراہ لوگ ان سے ان اشعار کو نقل کرتے تھے ۔ ان لوگوں کی آیت میں مذمت فرمائی گئی ۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَۙ(۲۲۵)
کیا تم نے نہ دیکھا کہ وہ ہر نالے میں سرگرداں پھرتے ہیں (ف۱۸۹)
(ف189)
اور ہر طرح کی جھوٹی باتیں بناتے ہیں اور ہر لغو وباطل میں سخن آرائی کرتے ہیں جھوٹی مدح کرتے ہیں جھوٹی ہجو کرتے ہیں ۔
وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَۙ(۲۲۶)
اور وہ کہتے ہیں جو نہیں کرتے (ف۱۹۰)
(ف190)
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اگر کسی کا جسم پیپ سے بھر جائے تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ شعر سے پر ہو مسلمان شعراء جو اس طریقہ سے اجتناب کرتے ہیں اس حکم سے مستثنٰی کئے گئے ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاؕ-وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠(۲۲۷)
مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے (ف۱۹۱) اور بکثرت اللہ کی یاد کی (ف۱۹۲) اور بدلہ لیا (ف۱۹۳) بعد اس کے کہ اُن پر ظلم ہوا (ف۱۹۴) اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم (ف۱۹۵) کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے (ف۱۹۶)
(ف191)
اس میں شعراءِ اسلام کا استثناء فرمایا گیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت لکھتے ہیں ، اللہ تعالٰی کی حمد لکھتے ہیں ، اسلام کی مدح لکھتے ہیں ، پند و نصائح لکھتے ہیں ، اس پر اجر و ثواب پاتے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے کہ مسجدِ نبوی میں حضرت حسّان کے لئے منبر بچھایا جاتا تھا وہ اس پر کھڑے ہو کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مفاخر پڑھتے تھے اور کُفّار کی بدگوئیوں کا جواب دیتے تھے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حق میں دعا فرماتے جاتے تھے ۔ بخاری کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بعض شعر حکمت ہوتے ہیں ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس مبارک میں اکثر شعر پڑھے جاتے تھے جیسا کہ ترمذی میں جابر بن سمرہ سے مروی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ شعرکلام ہے بعض اچھا ہوتا ہے بعض بُرا ، اچھے کو لو بُرے کو چھوڑ دو ۔ شعبی نے کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق شعر کہتے تھے ، حضرت علی ان سب سے زیادہ شعر فرمانے والے تھے رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔
(ف192)
اور شعر ان کے لئے ذکرِ الٰہی سے غفلت کا سبب نہ ہو سکا بلکہ ان لوگوں نے جب شعر کہا بھی تو اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء اور اس کی توحید اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت اور اصحابِ کرام و صُلحاءِ اُمّت کی مدح اور حکمت و موعظت اور زہد و ادب میں ۔
(ف193)
کُفّار سے ان کی ہجو کا ۔
(ف194)
کُفّار کی طرف سے کہ انہوں نے مسلمانوں کی اور ان کے پیشواؤں کی ہجو کی ان حضرات نے اس کو دفع کیا اور اس کے جواب دیئے یہ مذموم نہیں ہیں بلکہ مستحقِ اجر و ثواب ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ مؤمن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی یہ ان حضرات کا جہاد ہے ۔
(ف195)
یعنی مشرکین جنہوں نے سیدُ الطاہرین افضلُ الخَلق رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی ۔
(ف196)
موت کے بعد ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا جہنّم کی طرف اور وہ برا ہی ٹھکانا ہے ۔