اَمۡ اَنَا خَيۡرٌ مِّنۡ هٰذَا الَّذِىۡ هُوَ مَهِيۡنٌ وَّلَا يَكَادُ يُبِيۡنُ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 52
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَمۡ اَنَا خَيۡرٌ مِّنۡ هٰذَا الَّذِىۡ هُوَ مَهِيۡنٌ وَّلَا يَكَادُ يُبِيۡنُ ۞
ترجمہ:
(کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ) میں اس شخص سے بہتر ہوں جو بہت بےوقعت ہے اور جو اپنا مافی الضمیر صاف طرح بیان نہیں کرسکتا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ) میں اس شخص سے بہتر ہوں جو بہت بےوقعت ہے اور جو اپنا مافی الضمیر صاف طرح بیان نہیں کرسکتا (اگر یہ واقعی رسول ہے تو) اس کو سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنائے گئے یا اس کے پاس متواتر فرشتے آتے فرعون نے اپنی قوم کو بیوقوف بنالیا اور انہوں نے اس کی اطاعت کرلی، بیشک وہ نافرمان لوگ تھے پھر جب انہوں نے ہمیں ناراض کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا، پھر ہم نے اس سب کو غرق کردیا پھر ہم نے ان کو قصہ پارینہ بنادیا اور بعد کے لوگوں کے لیے ضرب المثل بنادیا (الزخرف :52-56)
فرعون نے اپنی قوم سے کہا : بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں جس کا اس ملک میں کوئی غلبہ اور اقتدار نہیں ہے، جو اپنی کم مائیگی کی وجہ سے اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتا اور نہ اپنا مافی الضمیر آسانی سے اور صاف طرح بیان کرسکتا ہے، فرعون کا مطلب یہ تھا کہ دعویٰ نبوت سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں گرہ تھی جس کی وجہ سے آپ کو بولنے میں مشکل پیش آتی تھی، پھر آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس گرہ کو کھول دیا تھ، فرعون آپ کے پچھلے حال کے اعتبار سے طعنہ دے رہا تھا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 52