أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوۡ نُرِيَنَّكَ الَّذِىۡ وَعَدۡنٰهُمۡ فَاِنَّا عَلَيۡهِمۡ مُّقۡتَدِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

یا ہم آپ کو وہ (عذاب) دکھادیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، سو بیشک ہم ان پر بہت قدرت رکھنے والے ہیں

تفسیر:

الزخرف : ٤٢ میں فرمایا : ” یا ہم آپ کو وہ (عذاب) دکھادیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، سو بیشک ہم ان پر بہت قدرت رکھنے والے ہیں “

اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے منکروں اور دشمنوں سے انتقام لے گا، آپ کی زندگی میں یا آپ کے وصال کے بعد۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے متعلق احادیث

حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل جب اپنے بندوں میں سے کسی امت پر رحمت کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس امت سے پہلے اس نبی کی روح کو قبض فرما لیتا ہے، پھر اس نبی کو اس امت کے سامنے مہربان پیش روبنا دیتا ہے اور جب کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے نبی کی زندگی میں اس کو عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیتا ہے اور وہ نبی اس کو عذاب میں دیکھتا ہے، پھر ان کی ہلاکت سے اس نبی کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا ہے کیونکہ انہوں نے اس نبی کو جھٹلایا تھا اور اس کے احکام کی نافرمانی کی تھی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٨)

بکر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے، تم احادیث بیان کرتے ہو اور تمہارے لیے احادیث بیان کی جاتی ہیں اور جب میں وفات پاجائوں گا تو میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہوگی، تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جائیں گے، پس اگر میں نے نیک اعمال دیکھے تو میں اللہ تعالیٰ کی حمد کروں گا اور اگر میں نے برے اعمال دیکھے تو میں تمہارے لیے استغفار کروں گا۔ حافظ سیوطی نے کہا : اس حدیث کی سند حسن ہے۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٧٧١، الطبقات الکبریٰ ، ج ٢ ص ١٤٩، کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٩٠٣)

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ جب تک چاہیں زندہ رہیں کیونکہ آپ بہرحال فوت ہونے والے ہیں اور آپ جو چاہے عمل کریں کیونکہ آپ کو جزاء دی جائیں گی اور آپ جس سے چاہیں محبت کریں، کیونکہ آپ سے جدا ہونے والے ہیں اور یاد رکھے، مومن کا شرف رات کے قیام میں ہے اور اس کی عزت لوگوں سے مستغنی رہنے میں ہے۔ (المعجم الاوسط ج ٥ ص ١٥١، مطبوعہ ریاض، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں زافر بن سلیمان ہے، اس کی امام احمد، ابن معین اور امام ابودائود نے توثیق کی ہے اور ان عدی اور ابن حبان نے اس میں کلام کیا ہے لیکن وہ مضر نہیں ہے، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٥٣۔ ٢٥٢ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 42