أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنَّهٗ لَذِكۡرٌ لَّكَ وَلِقَوۡمِكَ‌ ۚ وَسَوۡفَ تُسۡئَـلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور بیشک یہ قرآن آپ کے اور آپ کی قوم کے لیے ضرور شرف عظیم ہے اور عنقریب تم سب لوگوں سے سوال کیا جائے گا

تفسیر:

الزخرف : ٤٤ میں فرمایا : ” اور بیشک یہ قرآن آپ کے اور آپ کی قوم کے لیے ضرور شرف عظیم ہے “۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے فرمایا : سنو ! اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ مجھے اپنی قوم سے کتنی محبت ہے، اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی قوم میں یہ شرف عطا کیا کہ فرمایا : ” وانہ لذکرلک و لقومک وسوف تسئلون “ (الزخرف :44) اس قرآن میں آپ کا ذکر ہے اور آپ کی قوم کا ذکر ہے اور عنقریب تم سے سوال کیا جائے گا، پس اللہ کی کتاب میں میری قوم کا ذکر اور اس کا شرف ہے، اور فرمایا : ” وانذر عشیر تک من المومنین “ (الشعراء : 215) جو ایمان والے آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں یعنی میری قوم کے ساتھ، پس تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری قوم سے صدیق بنایا اور میری قوم سے شہید بنایا، اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں کے ظاہر اور باطن کو پلٹ دیا، تو عرب میں سے بہتر قریش تھے اور یہی وہ مبارک درخت ہے جس کے متعلق اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا : ” مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ “ (ابراہیم :24) پاکیزہ کلمہ کی مثال پاکیزہ درخت ہے، اس سے مراد قریش ہے، اس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو دین اسلام کے ساتھ مشرف کیا، ان کو ہدایت دی اور ان کو حضرت ابراہیم کا خاندان بنایا، پھر ان کے متعلق کتاب اللہ میں ایک سورت نازل کی : ” لایلف قریش “ (قریش :1-4) حضرت عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قریش کا ذکر نیکی کے ساتھ جاتا تو آپ خوش ہوجاتے تھے اور آپ اس آیت کی بہت زیادہ تلاوت کرتے تھے : ” وانہ لذکر لک ولقومک وسوف تسئلون “ (الزخرف :44)

(الدارالمنثور ج ٧ ص ٣٣٠۔ ٣٢٩، حافظ سیوطی نے اس حدیث کو امام طبرانی اور امام ابن مردودیہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ )

اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے : ” اور عنقریب تم سب لوگوں سے سوال کیا جائے گا “ اس کا معنی یہ ہے کہ قرآن مجید آپ کے اور آپ کی امت کے شرف اور عظمت کا ذریعہ ہے تو تم سب سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے اس کا حق ادا کیا اور تم نے اس کا شکر ادا کرنے کے لیے کیا کوششیں کیں یا تم اس قرآن کے ذریعہ صرف دنیا کماتے رہے اور مطالب نفسانیہ کی تحصیل کرتے رہے۔

عارفین کا علم کشف اور مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے اور علماء ظاہر کا علم ان کی ذہنی قوت پر مبنی ہوتا ہے، عارفین کی ابتداء تقویٰ اور نیک اعمال سے ہوتی ہے اور علماء ظاہر کی ابتداء کتابوں کے مطالعہ سے ہوتی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 44