أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَسۡــئَلۡ مَنۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلۡنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ اٰلِهَةً يُّعۡبَدُوۡنَ۞

ترجمہ:

اور آپ ان رسولوں سے پوچھئے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے رحمن کے سوا کچھ معبود مقرر کیے تھے جن کی عبادت کی جائے ؏

تفسیر:

الزخرف : ٤٥ میں فرمایا : ” اور آپ ان رسولوں سے پوچھئے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے رحمن کے سوا کچھ معبود مقرر کیے تھے جن کی عبادت کی جائے “

گزشتہ رسولوں سے سوال کرنے کی توجیہات

کفار مکہ جو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے تھے اس کا سبب قوی یہ تھا کہ وہ اس وجہ سے آپ سے سخت بغض رکھتے تھے کہ آپ ان کو بتوں کی عبادت سے منع کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ بتوں کی عبادت سے منع کرنا صرف (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء اور رسل بتوں کی عبادت سے منع کرنے پر متفق اور مجتمع تھے، اس لیے فرمایا کہ آپ ان رسولوں سے پوچھئے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے رحمن کے علاوہ کچھ اور معبود مقرر کیے تھے جن کی عبادت کی جائے ؟

اس مقام پر یہ سوال ہوتا ہے کہ جو رسول آپ سے پہلے گزر چکے ہیں ان سے آپ کے سوال کرنے کی کیا توجیہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مفسرین نے اس آیت کی متعدد توجیہات کی ہیں، ایک یہ ہے کہ گزشتہ رسولوں سے سوال کرنے کا معنی یہ ہے کہ گزشتہ رسولوں کی امتوں سے سوال کیا جائے۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا : آپ اہل تورات اور اہل انجیل سے سوال کیجئے، آیا ان کے پاس ان کے رسول صرف توحید کا قیغام لے کر آئے تھے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے یا اس کے علاوہ کسی اور خدا کی عبادت کا بھی پیغام لے کر آئے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٨٨٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ، علامہ ابوعبداللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ، علامہ بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ اور علامہ آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ نے بھی اس توجیہ کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٣٥، الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٨٨، تفسیر بیضاوی الخفاجی ج ٨ ص ٣٩٤، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٤٠، روح البیان ج ٨ ص ٥٠١، روح المعانی جز ٢٥ ص ١٣٢)

اس سوال کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ شب معراج اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام نبیوں اور رسولوں کو مسجد اقصیٰ میں جمع فرمایا اور وہاں جبریل نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جن کی عبادت کی جائے ؟ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں اس کے متعلق سوال نہیں کروں گا کیونکہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

ابن زید الزخرف : ٤٥ کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں : شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو جمع کیا گیا، آپ نے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی امامت فرمائی اور ان کو نماز پڑھائی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ ان سے سوال کیجئے اور آپ کا اللہ تعالیٰ پر بہت کامل اور بہت پختہ یقین تھا اور آپ کو اس مسئلہ میں کوئی شک نہیں تھا، اس لیے آپ نے انبیاء (علیہم السلام) سے کوئی سوال نہیں کیا اور نہ آپ نے ان کی امتوں سے کوئی سوال کیا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٨٨٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ، علامہ ابو عبداللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ علامہ بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، علامہ اسماعیل حنفی متوفی ١١٣٧ ھ اور علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اور علامہ زمخشری نے بھی اس جواب کا ذکر کیا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٣٥، الجامع لا حکام القرآن جز ١٦ ص ٨٨۔ ٨٧، تفسیر بیضاوی مع الخفاجی ج ٨ ص ٣٩٤، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٤٠، روح البیان ج ٨ ص ٥٠١، روح المعانی جز ٢٥ ص ١٣٢، الکشاف ج ٤ ص ٢٥٨ )

علامہ محمد مصلح الدین القوجوی الحنفی المتوفی ٩٥١ ھ نے اس جواب کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب راتوں رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد اقصیٰ لے جایا گیا تو وہاں آپ کے لیے حضرت آدم اور ان کی اولاد سے تمام رسولوں کو جمع کیا گیا، پھر حضرت جبریل نے اذان دی اور اقامت کہی اور کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آگے بڑھئے اور ان سب کو نماز پڑھائیے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء اور مرسلین کو نماز پڑھا کر فارغ ہوگئے تو آپ سے حضرت جبریل نے کہا : اے محمد ! آپ ان رسولوں سے پوچھئے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے رحمن کے علاوہ کچھ اور معبود مقرر کیے تھے جن کی عبادت کی جائے۔ (الزخرف : ٤٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں سوال نہیں کرتا کیونکہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں وہ نہیں ہوں جو شک کروں اور میں وہ نہیں ہوں جو سوال کروں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سوال کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس کے باوجود آپ نے سوال نہیں فرمایا، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم تھا کہ اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپ پر سوال کرنا واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سوال کسی شک اور شبہ کو دور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس معاملہ میں کوئی اشتباہ نہیں تھا کہ بتوں کی عبادت کرنی جائز نہیں ہے اور عبادت صرف اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی کرنی واجب ہے، اس سے معلوم ہوگیا کہ اس آیت سے صرف یہ مراد ہے کہ مشرکین قریش وغیرھم کو یہ باور کرایا جائے کہ کسی رسول نے یہ کہا ہے نہ کسی کتاب میں یہ مذکور ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ (حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٧ ص ٤٧١، ٤٧٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس سوال کا تیسرا جواب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو انبیاء سابقین سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے حقیقتاً سوال کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مجازاً انبیاء سابقین کی شریعتوں میں غور وفکر کرنا مراد ہے، آیا کسی سابق نبی کی شریعت میں غیر اللہ کی عبادت کرنے کا حکم تھا یا نہیں۔

علامہ ابو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی متوفی ٥٣٨ ھ لکھتے ہیں :

الزخرف ف : ٤٥ میں انبیاء سابقین سے حقیقتاً سوال کرنا مراد نہیں ہے کیونکہ ان سے آپ کا سوال کرنا محال ہے بلکہ اس سے مجازاً ان کی ملتوی اور شریعتوں میں غور وفکر کرنا مراد ہے کہ آیا کسی شریعت سابقہ میں بتوں کی عبادت کرنے کا حکم ہے یا نہیں، اور ان کی ملتوں اور شریعتوں میں غور و فکر کرنا کافی ہے۔ اور آپ کے اوپر جو کتاب نازل کی گئی ہے جس کا صادق ہونا معجزہ سے ثابت ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہ مشرکین غیر اللہ عبادت کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ (الحج : ٧١) اور یہ آیت فی نسہا کافی ہے، کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اس سے واضح ہوگیا کہ انبیاء (علیہم السلام) سے حقیقتاً سوال کرنا مراد نہیں ہے، بلکہ اس مجازاً ان کی شریعتوں میں غور وفکر کرنا مراد ہے اور کتنی مرتبہ شعراء کہتے ہیں کہ گھروں اور ٹیلوں سے سوال کرو، جیسے کہتے ہیں کہ تمہارے اندر دریائوں کو کس نے جاری کیا اور نہروں کو کس نے کھودا اور درختوں کو کس نے اگایا اور تمہارے پھلوں کو کس نے پیدا کیا ؟ پھر وہ زمین حیرت سے زبان سے کوئی جواب نہیں دے گی، وہ تمہیں اعتبار اور قیاس سے جواب دے گی۔ (الکشاف ج ٤ ص ٢٥٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٧ ھ)

امام رازی، علامہ قرطبی اور علامہ اسماعیل حقی نے بھی اس تفسیر کا کشاف کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔

اس سوال کا یہ جواب بھی دیا گیا ہے کہ سابقہ رسولوں کی لائی ہوئی کتابوں سے معلوم کرو جس طرح قرآن مجید میں ہے :

فان تنا زعتم فی شیء فردوۃ الی اللہ والرسول۔ (النساء :59)

اگر تمہارا کسی چیز میں اختلاف ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ۔

اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی معاملہ میں اگر تمہارا اختلاف ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لے جائو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کرو، اسی طرح اس آیت میں بھی گزشتہ رسولوں سے سوال کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ جو سابقین رسول دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں، ان سب کے پاس جاکر ان سے سوال کرو، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے رسول دنیا میں جو اپنی کتابیں اور اپنی تعلیمات چھوڑ گئے ہیں ان سب میں تلاش کر کے دیکھو کہ آیا کسی رسول نے یہ تعلیم دی تھی کہ اللہ عزوجل کے سوا اور کوئی بھی عبادت کا مستحق ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 45