وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۫ئِه فَقَالَ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 46
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۫ئِه فَقَالَ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا، پھر انہوں نے کہا : میں اس کا رسول ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا، پھر انہوں نے کہا : میں اس کا رسول ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے سو جب وہ ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس پہنچے تو اسی وقت وہ ان نشانیوں پر ہنسنے لگے اور ہم ان کو جو نشانی بھی دکھاتے تھے وہ اس سے پہلے دکھائی ہوئی نشانیوں سے بڑی ہوتی تھی اور ہم نے ان کو (بار بار) عذاب سے پکڑاتا کہ وہ باز آجائیں (الزخرف :46-48)
حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصہ کو یہاں ذکر کرنے کے مقاصد اور فوائد
اس مقام پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا قصہ جو ذکر کیا گیا ہے، اس سے اس مضمون کی تاکید کرنا مقصود ہے جو اس سے پہلے گزر چکا ہے کیونکہ کفار مکہ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کیا تھا کہ آپ کے پاس مال کی کثرت نہیں ہے اور نہ معاشرہ میں آپ کو کوئی بڑا منصب حاصل ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے ایسے قومی معجزات پیش کیے جن کے صحیح ہونے میں کوئی شک اور شبہ نہ تھا تو اس فرعون نے بھی حضرت موسیٰ پر ایسا ہی اعتراض کیا تھا جیسا کہ کفار مکہ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا تھا، اس نے کہا : میں غنی ہوں اور میرے پاس بہت مال ہے اور میرے ماتحت بہت بڑی فوجیں ہیں اور تمام مصر کے ملک پر میری حکومت ہے اور محل کے کنارے دریا بہہ رہے ہیں اور رہے موسیٰ تو وہ فقیر ہیں اور معاشرہ میں کم حیثیت ہیں، ان کو اپنے مانی الضمیر کے اظہار پر قدرت نہیں ہے اور جو شخص فقیر اور کم حیثیت ہو اس کو اتنے بڑے بادشاہ کے دربار میں سفیر بنا کر کیسے بھیجا جاسکتا ہے اور یہ ایسا ہی شبہ ہے جیسا کہ کفار مکہ نے کہا تھا کہ یہ قرآن ان دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل ہوا۔ (الزخرف : ٣١) اور ایسا ہی اعتراض فرعون نے حضرت موسیٰ پر کیا تھا، پھر ہم نے فرعون سے انتقام لیا اور فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں غرق کردیا اور اس قصہ کو یہاں ذکر کرنے سے تین چیزوں کی تاکید کرنا ہے :
(١) کفار اور مشرکین ہمیشہ سے انبیاء (علیہم السلام) پر اس قسم کے رکیک اعتراضات کرتے چلے آئے ہیں، لہٰذا ان اعتراضات کی پرواہ نہ کی جائے۔
(٢) فرعون روئے زمین کا بہت بڑا بادشاہ تھا، اس کے باوجود وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں خائب وخاشر اور ناکام اور نامراد ہوا (رح) ، اسی طرح مکہ میں آپ کے مخالف کفار اور مشرکین ناکام اور نامراد رہیں گے۔
(٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مخالف فرعون بہت بڑا بادشاہ تھا اور اس کے ماتحت بہت بڑا لشکر تھا اور اس کے درباری اور معاون اس زمانہ کے بہت بڑے جادوگر تھے اور اس کی پوری قوم اس کی خدائی کو مانتی تھی اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو مخالفین تھے وہ فرعون کی طرح طاقت ورنہ تھے۔ وہ سب مختلف قبائل اور گروہوں میں بنے ہوئے تھے۔ ان کے پاس کوئی فوج تھی نہ طاقت اور اقتدار تھا تو جب فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں پسپا ہوگیا تو یہ کفار مکہ تو فرعون کی طرح اقتدار والے نہ تھے، ان کا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں پسپا ہونا بہت یقینی ہے اور یہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 46