أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَنۡ يَّعۡشُ عَنۡ ذِكۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَيِّضۡ لَهٗ شَيۡطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيۡنٌ ۞

ترجمہ:

اور جو شخص رحمن کی یاد سے (غافل ہوکر) اندھا ہوجاتا ہے، ہم اس کے لیے ایک شیطان کو مسلط کردیتے ہیں، سو وہی اس کا ساتھی ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور جو شخص رحمن کی یاد سے (غافل ہوکر) اندھا ہوجاتا ہے، ہم اس کے لیے ایک شیطان کو مسلط کردیتے ہیں، سو وہی اس کا ساتھی ہے اور بیشک وہ شیاطین انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں حتیٰ کہ جب وہ (اندھا کافر) ہمارے پاس آئے گا تو وہ (شیطان سے) کہے گا : اے کاش ! میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی سو وہ کیسا بُرا ساتھی ہے ! اور (اے کافرو ! ) تمہیں آج اس (پشیمانی) سے ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، تم سب عذاب میں شریک ہو

(الزخرف :36-39)

اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہونے کا وبال

الزخرف : ٣٦ میں ” یعشو “ کا لفظ ہے، عشایعشو کا معنی ہے : آنکھوں کی بیماری، رتوندیا اس کی وجہ سے اندھا پن ہونا، جب اس کا صلہ ” الی “ ہو تو اس کا معنی ہے : قصد کرنا اور جب اس کا صلہ ” عن “ ہو تو اس کا معنی ہے : اعراض کرنا، اور جب اس کا صلہ ” علی “ ہو تو اس کا معنی ہے : ظلم کرنا۔ (الفردات ج ٢ ص ٤٣٦، لسان العرف ج ١٠ ص ١٦٣ )

اس آیت سے دنیا کی آفتوں پر تنبیہ کرنا مراد ہے کہ جس شخص کے پاس زیادہ مال ومتاع ہوتا ہے اور وہ کسی اونچے منصب پر بھی فائز ہوتا ہے، وہ طاقت اور اقتدار کے نشہ میں کسی بدمست ہاتھی کی طرح کمزوروں اور غریبوں کو روندتا چلا جاتا ہے اور وہ اللہ کی یاد سے بالکل غافل ہوجاتا ہے اور جس شخص کا یہ حال ہو وہ شیطان کے ہم نشینوں کی طرح ہوجاتا ہے، خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔

اس آیت میں فرمایا ہے کہ شیطان اس کا ساتھی ہوجاتا ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا : شیطان اس کا دنیا میں ساتھی ہوجاتا ہے، اس کو فرائض، واجبات اور سنن کی ادائیگی سے روکتا ہے اور اس کو اللہ کی اطاعت اور عبادت سے منع کرتا ہے اور حرام اور ممنوع کاموں کی اس کو ترغیب دیتا ہے۔

سعید الجریری نے کہا : شیطان آخرت میں اس کا قرین بن جاتا ہے، جب وہ قبر سے اٹھتا ہے تو شیطان اس کے ساتھ ہوتا ہے۔

اور قشیری نے یہ کہا کہ شیطان اس کا دنیا اور آخرت میں قرین ہوتا ہے۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کے ساتھ شرکا ارادہ کرتا ہے تو اس کی موت سے ایک سال پہلے اس کے لیے ایک شیطان مسلط کردیتا ہے، وہ جب بھی کسی نیک چیز کو دیکھتا ہے تو وہ اس کو بری معلوم ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور وہ جب بھی کسی بری چیزکو دیکھتا ہے تو وہ اس کو اچھی معلوم ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ اس پر عمل کرتا ہے۔ (الفردوس بما ثور الخطاب ج ١ ص ٢٤٥، رقم الحدیث : ٩٤٨ )

یہ شیطان اس شیطان کا غیر ہوتا ہے جو ہر انسان کا قرین ہے، جس کا ذکر اس حدیث میں ہے :

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص پر ایک شیطان کو قرین بنا کر مسلط کیا گیا اور ایک فرشتہ کو قرین بناکر مسلط کیا گیا ہے، صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ پر بھی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! مجھ پر بھی، لیکن اللہ نے میری مدد فرمائی، میرا وہ قرین مسلمان ہوگیا اور وہ مجھے نیکی کے سوا اور کوئی مشورہ نہیں دیتا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨١٤، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٨٣٣)

اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہتا ہے شیطان اس کے قریب نہیں جاتا اور جو شخص فرائض اور واجبات کی ادائیگی کے وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کو یاد نہیں رکھتا اور معصیت اور گناہ کے ارتکاب کے وقت اللہ تعالیٰ سے حیاء نہیں کرتا، تو اس پر اللہ تعالیٰ شیطان کو مسلط کردیتا ہے اور وہ اس کا قرین اور ساتھی بن جاتا ہے اور اس کو ناجائز خواہشوں کی طلب پر اکساتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کی عقل اور اس کے علم پر حاوی اور غالب ہوجاتا ہے اور یہ اس کی سزا ہے جو قرآن اور سنت بےاعراض کرتا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف آیت نمبر 36