ویسے تو اسلام میں رَہبانیت کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن حدیثِ بخاری “لَتَتّبِعَنَّ سُنَنَ مَنْ کان قَبْلَکُمْ ” کے مصداق پاکستان میں اصحابِ منبر ومحراب کے مزاجوں میں رہبانیت ایسے سرایت کرچکی ہے جیسے بنی اسرائیلیوں کے دلوں میں گؤسالہ پرستی (بچھڑے کی پوجا) سرایت کرچکی تھی ۔اِلّاماشاءاللہ

۔

بنی اسرائیلیوں کے احبار ورھبان(مذھبی علماء وروحانی پیشواؤں) نے دینِ موسویت و دینِ عیسویت کو گرجا وکنیسا کی چاردیواری تک محدود کردیا تھا ۔اُن کے نزدیک تصورِ دین یہ تھا کہ بندہ چند مخصوص عبادات میں محو رہے، کھجور پانی کھاکر گزارہ کرے، گرجا وکنیسا عبادت گزاروں سے بھرے رہیں وبس ۔۔۔۔

۔

ملکِ پاکستان کے اکثر اصحابِ محراب ومنبر کا بھی یہی روش ہے مسجدیں آباد رہیں، سب لوگ نمازیں پڑھیں، تسبیحات کا ورد رہے، مخصوص ٹولے بناکر گشت لگانے کا سلسلہ ہو اور بس ۔

۔

دنیا میں کیا ہورہا ہے، کیا ہونے جارہا ہے، اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کون کون سے ہیں اصحابِ محراب ومنبر کو اِس سے کوئی سروکار نہیں ہے ،اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد قائم رہے ،میری امامت ،خطابت چلتی رہے یعنی اپنا کام بنتا بھاڑ میں جَنْتا ۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ خیر سلا ۔

۔

مُنْدرجہ بالا سطور پڑھتے ہوئے وارثینِ منبر ومحراب میں بعض کے مزاج کے تھرمامیٹر کا فارن ہائیٹ 100% ڈگری تک پہنچ گیا ہوگا لیکن خیر ہم نے بھی اُن کے بخارِ جھلِ بسیط کے اتارے کا پورا پورا انتظام کررکھا ہے تو لیجئے علاجِ علمی وعملی حاضر ہے ۔

۔

اصحابِ محرابِ ومنبر چاہتے ہیں سارے لوگ نمازی بن جائیں، مسجدیں آباد ہوجائیں ۔۔۔۔۔سبحان اللہ ۔۔۔۔۔بہت ہی اچھی بات ہے ہم بھی چاہتے ہیں دنیا کے مسلمان نمازی بن جائیں، مسجدیں عبادت گزاروں سے بھر جائیں ۔۔۔۔

۔

عبادت گزاری ہو یا تَمَدّنِیْ زندگی، عائلی معاملات ہوں یا ملکی معاملات اسلام نے اِن تمام کےلئے ایک رول ماڈل دیا ۔قرآنِ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے “لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ حسنۃ ” تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں تمھارے لئے بہترین نمونہ ہے ۔

۔

شریعت پر عمل پیرا ہونے کے تعلق سے ربّ کائنات جلّ مجدہ نے رسولوں کو مخاطب فرما کر امّت کو حکم دیا “یاایھاالرسل کلوا من الطیّبٰتِ واعملوا صالحا”

اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو ۔

مقامِ غور

ہمارے علمائے کرام نے یہاں نقطہ بیان فرمایا کہ کھانے کاحکم پہلے ہے اور عبادت کا بعد میں ۔

۔

جب پیٹ خالی ہو، انسان مالی پریشانیوں کا شکار ہو تو وہ رب کی عبادت بھی درست طریقے سے نہیں کرسکے گا ۔

۔

ایمان کے بعد فرض نماز کی انتہائی زیادہ اہمیت ہے ۔شریعتِ مُقَدّسہ کا حکم ہے اگر کسی شخص کو سخت بھوک لگی ہے اور کھانا حاضر ہے تو پہلے کھانا کھائے اِس کے بعد نماز پڑھے ۔

۔

رزقِ کے فلسفے کی اہمیت ایک اور شرعی مسئلہ سے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔اگر کوئی شخص کھانا پینا ترک کردے اور بھوک سے مرجائے اسلام کہتا ہے کہ مرنے والے کا یہ فعل حرام ہے اور وہ اشدّالکبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے ۔

۔

فقہھی قاعدہ ہے “الضرورات تُبیح المحظورات ” اِس قاعدہ کی جملہ نظائر میں سے ایک نظیر(مثال) یہ ہے اگر کسی شخص کی جان پر بن جائے ،جان بچانے کےلئے اسے حلال شئ میسر نہ ہوتو وہ بقدرِ ضرورت حرام کھاکر بھی اپنی جان بچا سکتا ہے ۔

۔

اِن تمام فقھی جزئیات میں مقصدِ شرع اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسان مالی اعتبار سے خوشحال ہو تاکہ رب کی عبادت بخوشی کرسکے، معرفتِ الٰہی کے راسطے پر بلاکسی تردّد چل سکے ۔۔۔

۔

پاکستان کا نظامِ معیشت، حکمران جماعتوں کا سود در سود قرضے لینا اور پھر لاک ڈاؤن وغیرہ کے ذریعے ملکی معیشت کا پہیہ جام کرنا، آئے روز کی مہنگائی یہ سب عوامل اصحابِ محراب ومنبر کو سوچ وفکر کی دعوت دے رہیں کہ اے حاملانِ شریعت! تمھارے ملک کا نظامِ معیشت ، حکمرانوں کاطرزِعمل اور مہنگائی در مہنگائی کیا اسلامیانِ پاکستان کو خوشحالی مُیسر کرکے انہیں رب کی عبادت کی طرف فارغ البالی دلانے والی ہے یا نہیں؟

۔

اگر نہیں ہے تو پھر آپ حضرات کا اپنی تبلیغ کو محدود کرنا، حکمران جماعتوں کی معیشت کُش پالیسیز پر چپ رہنا کس قاعدے کے تحت درست ہے ؟۔

آپ میں سے بعض حضرات تو ایسے ہیں جو حکمرانوں سے ایسے گھلتے ملتے ہیں کہ جیسے جنیدِ بغدادی کے نواسوں سے اُن کی ملاقات ہورہی ہو ۔

۔

ایک طرف آپ حضرات کی چاہت ہے لوگ نیک بن جائیں، مسجدیں آباد ہوجائیں اور دوسری طرف مزاجِ شریعت سے ناموافق معاشی پالیسیز بنانے پر حکمرانوں کو تنبیہ بھی نہ کرنا ۔۔۔۔۔یہ سب کیا ہے؟

۔

کیا آپ حضرات واقعی بنی اسرائیلی علماء ومشائخ کی طرح دین کو چاردیواری کی اندر محدود کرنا چاہتے ہیں ؟

۔

سجدہ خالق کو بھی ، اسلام سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

۔

انسان جب معاشی تنگیوں کا شکار ہوجائے تو اُس کو ایمان کے لالے پڑ سکتے ہیں جسکی طرف حدیث میں اشارہ ہے “کادالفقرُ ان یکون کفرا “

نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا

۔

جو اہلِ فضل عالم وفاضل کہاتے ہیں

مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں

۔

غور کیجئے مضبوط علم والے عالم کو بھی مفلسی ہلادیتی ہے تو کم علم، کم فھم عوام پر حکمرانوں کی معیشت کُش پالیسیاں کس قدر اثر انداز ہوتی ہونگی ۔

بدکاریوں کے اڈے آباد رہنے کی ایک وجہ معاشی پریشانیاں بھی ہیں ۔

۔

دعا ہے اللہ پاک ہمارے اصحابِ محراب ومنبر کو کنوئیں سے مرا ہوا کتا نکال کر پھر کنوئیں کا پانی پاک کرنا نصیب فرمائے ۔آمین

✍️ ابوحاتم

02/08/2021/