تحریر کا معیار

تحریر دو جملوں کی بھی ہوتی ہے اور دو جلدوں پر بھی محیط ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے دو جملے وہ کچھ سکھا جائیں جو دو جلدوں سے بھی ممکن نہ ہوں۔ اسلئے کسی بھی مضمون کو تحریر کرنے سے پہلے چند امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

امید ہے درج ذیل امور کا لحاظ رکھنے سے آپ کی تحریر مؤثر، معتبر، بامقصد، معیاری اور فائدہ مند ہوجائے گی۔

1۔ موضوع

2۔ ماخذ

3۔ مخاطَب

4۔ مقصد و محرِّک

5۔ اسلوب

6۔ حوالہ جات

7۔ آغاز و انجام

8۔ پروف ریڈینگ اور تصحیح

9۔ تحریر شخصیت کا آئینہ دار ہوتی ہے

🍀 1۔ موضوع

سب سے پہلے موضوع دیکھئے، اگر موضوع موافقِ طبیعت ہے تو قلم اٹھائیے ورنہ اس کام کو دوسرے کیلئے چھوڑ دیجئے۔

یاد رکھیں جب تک طبیعت موضوع کی طرف مائل نہیں ہوگی اس موضوع کا صحیح فہم حاصل نہیں ہوسکے گا اور بہت ممکن ہے نتیجہ فاسد نکلے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس موضوع پر قلم اٹھانا آپ کے لئے شرمندگی کا باعث بن جائے۔

🍀 2۔ ماخذ

خود پر لازم کرلیجئے کہ کسی بھی موضوع کی امہات الکتب دیکھے بنا قلم نہیں اٹھائیں گے۔ اس سے آپ بہت سے مفاسد سے بچ جائیں گے، ویسے بھی نقل پر اعتماد محققین کا وطیرہ نہیں ہوتا۔

ہاں اگر امہات الکتب تک رسائی نہ ہو تو نقل پر اعتماد کریں اور اسی کتاب کا حوالہ دیجیے جہاں سے عبارت اٹھائی ہے۔

مثلا امام غزالی نے قوت القلوب کا حوالہ دیا ہے اور قوت القلوب آپ کو میسر نہیں تو یوں لکھیں:

امام غزالی نے قوت القلوب کے حوالے سے لکھا ہے (احیاء العلوم بحوالہ قوت القلوب، ج، ص۔)

اردو یا ایسی کتابیں جو کسی محقق یا اس شعبہ کے مسلم عالم کی تصنیف ہوں قابل حوالہ ہوتی ہیں۔

🍀 3۔ مخاطَب

آپکا مخاطب کون ہے، مخاطب کا انتخاب ضروری بھی ہے اور آپکی تحریر کی چال ڈھال اسی پر ڈیپینڈ کرتی ہے۔

مثلا مخاطب عام عوام ہے تو انہیں لغوی اصطلاحی تعریفات اسکے عربی مصادر و مشتقات میں لے جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنا مدعا و مقصد عام الفاظ میں بیان کردیجیے۔

اگر مخاطب مذہبی یا پڑھے لکھے لوگ ہیں تو انہیں قدرے اضافے و شرح کے ساتھ بات سمجھائی جاسکتی ہے۔

🍀 4۔ مقصد و محرِّک

تحریر کا بنیادی مقصد ”اصلاح“ ہونی چاہیے وہ بھی خالصتا لوجہ اللہ جبھی اس میں اثر پیدا ہوگا۔

کسی موضوع پر قلم اٹھانے کے چار محرکات ہوتے ہیں:

۱۔ کسی موضوع پر تحقیق

۲۔ کسی تحقیق شدہ موضوع کے جزوی پہلو پر اضافہ

۳۔ کسی تحقیق شدہ موضوع کے مشکل مقام کی وضاحت

٤۔ کسی تحقیق شدہ موضوع کی تبلیغ و ترویج

🍀 5۔ اسلوب

تحریر کا اسلوب اسکے موضوع کے حساب سے ہوتا ہے۔

مذکورہ چار محرکات اسلوب طے کرتے ہیں۔

تحریر ادبی یا افسانوی اسلوب پر ہو تو وہ بھی تحقیق شدہ موضوع کی ترویج میں داخل ہے۔

ہر اسلوب میں خیال رہے کہ ایک ہی الفاظ کی تکرار، ایک ہی بات کی دھرائی، بات کو طول دینا، دقیق ترین انداز اختیار کرنا، ناقابل فہم الفاظ یا مارواء الفہم مثالیں یہ سب تحریر کو کمزور اور خراب کردیتی ہیں۔

🍀 6۔ حوالہ جات

حوالہ جات کا اسٹینڈرڈ ایک ہی ہو، یہ نہ ہو کہ کہیں جلد لکھ رہے ہیں تو کہیں صرف ج، کہیں کوما ”،“ ڈال رہے ہیں تو کہیں ڈیش ”۔“ کا استعمال، کہیں مطبوعہ تو کہیں فقط کتاب کا نام۔

مثال کے طور پر:

احیاء العلوم جلد 01، صفحہ 202

احیاء العلوم جلد اول، ص 202

احیاء العلوم 1/202

🍀 7۔ آغاز و انجام

بعض محررین تمہید و تتمہ کو بہت طول دیتے ہیں بعض اعتدال کا خیال رکھتے ہیں۔

آپ رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں مگر فقیر (ابو محمد عارفین القادری) ذاتی طور پر تمہید و تتمہ کا قائل نہین ہے، اگر کتاب لکھنا ہو تو کتاب کا مقصد اور ضروری وضاحتیں مقدمے میں بیان کردی جائیں اور فورا موضوع شروع کردیا جائے، عام تحریروں میں تمہید و تتمہ کی حاجت نہیں ہوتی، دوتین جملے کافی ہوتے ہیں۔ خصوصا اس دور میں کہ لوگ تحریر کے مندرجات کو سرسری دیکھ کر مفہوم سمجھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

🍀 8۔ پروف ریڈینگ اور تصحیح

تحریر کے بعد پروف ریڈینگ ضروری ہے تاکہ لفظی اغلاط نہ ہوں اور کسی صاحبِ علم کو تحریر چیک کروادیں تاکہ شرعی اغلاط سے بچا جا سکے۔

🍀 9۔ تحریر شخصیت کا آئینہ دار ہوتی ہے

یاد رکھیں جیسی تحریر آپ مارکیٹ میں اتارتے ہیں ویسی ہی آپ کی شخصیت کا تاثر بنتا ہے۔

تحریر میں شدت ہے تو آپ متشدد، اعتدال ہے تو معتدل، تحقیقی رنگ ہے تو محقق، سنجیدگی، مزاح، لفاظی، موضوعی یعنی جیسا رنگ آپ کی تحریر میںسد ہوگا وہی آپکی شخصیت کا آئینہ دار بنے گی۔

فقیر اسلاف پسند، سنجیدہ، معتدل اور تحقیقی انداز کا قائل ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ تحریر تمام پہلووں کو گھیرنے والی، اسلاف شناس اور موضوعی ہو۔

✍ ابو محمد عارفین القادری

05 مارچ 2020

عروس البلاد کراچی