مشارق الأنور اور مشائخ ہند
sulemansubhani نے Tuesday، 3 August 2021 کو شائع کیا.
::: مشارق الأنور اور مشائخ ہند :::
امام ابو الفضائل رضی الدین حسن بن محمد صاغانی حنفی لاہوری ثم بغدادی علیہ الرحمہ جلیل قدر ائمہ احناف سے تھے۔ آپ کی ولادت 577ھ میں لاہور میں ہوئی، وصال 650ھ میں بغداد میں ہوا اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی تدفین مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
امام ذہبی نے آپ کا تعارف سیر اعلام النبلاء میں اس طرح لکھا ہے:
“الشَّيْخُ الإِمَامُ العَلاَّمَةُ المُحَدِّثُ إِمَامُ اللُّغَةِ رَضِيُّ الدين أَبُو الفَضَائِلِ الحَسَنُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ بنِ حَيْدرِ بنِ عَلِيٍّ القُرَشِيّ، العَدَوِيّ، العُمَرِيّ، الصَّاغَانِيّ الأَصْل، الهندِي، اللُّهَوْرِي المَوْلِد، البَغْدَادِيّ الوَفَاة، المَكِّيّ الْمَدْفن، الفَقِيْه، الحَنَفِيّ، صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ۔”
امام ذہبی مزید لکھتے ہیں:
“وَكَانَ إِلَيْهِ المُنْتَهَى فِي مَعْرِفَةِ اللِّسَان العربِي؛ لَهُ كِتَاب “مَجْمَعِ البَحْرَيْنِ” فِي اللُّغَة اثْنَا عَشرَ مُجَلَّداً، وَكِتَابُ “العُبَابِ الزَّاخرِ” فِي اللُّغَة عِشْرُوْنَ مُجَلَّداً، وَ”الشَّوَارد” فِي اللُّغَة مُجَلَّد، وَكُتُبٌ عِدَّةٌ فِي اللُّغَةِ، وَكِتَابٌ فِي عِلمِ الحَدِيْثِ، وَكِتَابُ “مَشَارِق الأَنوَار فِي الْجمع بَيْنَ الصَّحِيْحَيْنِ”، وَكِتَاب فِي الضُّعَفَاءِ، وَمُؤلف فِي الفَرَائِضِ،۔۔۔۔۔۔”
(سير أعلام النبلاء؛ج:16؛ ص:441)
آپ کے جلیل القدر شاگرد امام حافظ شرف الدین دمیاطی (705-613ھ) اپنے شیخ کے بارے میں کہتے ہیں:
“كَانَ شَيْخاً صَالِحاً صَدُوْقاً صموتاً إِمَاماً فِي اللُّغَة وَالفِقْه وَالحَدِيْث،۔۔۔۔۔۔۔”
امام رضی الدین صاغانی علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات اور آپ کی شہر آفاق کتاب “مشارق الأنور النبویۃ علی صحاح الأخبار المصطفیۃ” پر جس طرح کا کام ہونا چاہیے تھا نہیں ہوا۔
امام رضی الدین صاغانی کی کئی کتب ہنوز غیر مطبوعہ ہیں، کتاب “مشارق الأنور” کے بھی کئی شروحات کا یہی حال ہے۔
ہم یہاں “مشارق الأنور” کے ایک دوسرے پہلو پر اپنا حاصل مطالعہ اور معلومات “مشارق الأنور اور مشائخ ہند” عنوان کے تحت احباب کی نذر کرنا چاہتے ہیں:
1) “مشارق الأنور” میں، شارح مشارق الأنور- امام کازرونی علیہ الرحمہ کے مطابق امام رضی الدین صاغانی علیہ الرحمہ نے 2246 احادیث صحیحین سے انتخاب کرکے درج کی ہیں۔ (آئینہ ہندوستان اخی سراج الدین – احوال و آثار، ص: 216؛ مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی)
2) سیر الاولیاء کی روایت کے مطابق حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ “مشارق الأنور” کے حافظ تھے اور اسے مکمل طور پر اپنے استاذ گرامی محدث کبیر مولانا شیخ کمال الدین زاہد (م:684ھ) سے پڑھا تھا، جس کی تکمیل پر استاد گرامی نے اپنے دست کرم سے لکھ کر سند حدیث عطا کی تھی۔ (آئینہ ہند اخی سراج الدین- احوال و آثار؛ ص: 217)
3) خلیفہ محبوب الہی، مصنف ہدایۃ النحو – حضرت آئینہ ہندوستان اخی سراج الدین چشتی اودھی(م: 758ھ) بھی مشارق الأنور کے حافظ تھے۔ (آئینہ ہندوستان اخی سراج الدین- احوال و آثار؛ ص: 217)
4) خلیفہ محبوب الہی- حضرت علامہ شمس الدین محمد بن یحیی اودھی(م: 747ھ) نے سب سے پہلے “مشارق الأنور” کی شرح لکھی۔ (علم حدیث میں بر عظیم پاک و ہند کا حصہ؛ ڈاکٹر محمد اسحاق/ شاہد حسین رزاقی؛ ص: 76-77)
5) خلیفہ چراغ دہلی، مخدوم دکن حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ نے “مشارق الأنور” کا فارسی میں ترجمہ کیا اور ایک مضبوط شرح بھی لکھی۔
6) حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ نے “مشارق الأنور” سے احادیث کا انتخاب کرکے ایک اربعین ترتیب دی تھی اور اس میں ہر حدیث کے تحت صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ہم معنی اقوال کو بھی جمع کیا تھا۔ (ایضا؛ص: 80)
7) حضرت علامہ سید شمس الدین خواجگی کڑوی (م:878ھ) نے مشارق الأنور سے منتخب کرکے ایک اربعین ترتیب دی تھی، آپ اس اربعین کو حفظ بھی کیا تھا۔ (ایضا؛ص:81)
8) سلسلہ فردوسیہ کے عظیم بزرگ اور مخدوم جہاں حضرت شرف الدین یحیی منیری علیہ الرحمہ کے خلیفہ – حضرت شیخ سید مظفر بلخی (م: 788ھ) علیہ الرحمہ نے “مشارق الأنور” کی ایک شرح لکھی تھی۔ (ایضا)
احباب مشورہ دیں کہ “مشارق الأنور” پر ہم کس طرح کا کام کرسکتے ہیں یا ہمیں کرنے کی ضرورت ہے؟
ٹیگز:-
مشارق الأنور , مشائخ ہند