کتابوں کی دنیا سے کچھ نئی باتیں

از قلم مفتی علی اصغر

23 ذو الحجہ1442

3 اگست 2021

عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں قائم مکتبہ عربیہ پر بیرون ملک سے کتب کا نیا کینٹیر آیا ہےکل سے ہی سیل شروع ہوئی تھی. تو کل تین کارٹن ہم بھی لے آئے کتب کے بھر کر.

بہت عمدہ کتب آئیں ہیں کچھ تووہ ہیں جس کی آمد کا لمبے عرصے سے انتظار تھا

ہر شخص کے لئے وہ کتاب اہم ہوتی ہے جس کی اسے حاجت ہے جیسے مجھے اگر فقہ کی کتاب کی زیادہ حاجت ہوتی ہے تو ممکن ہے سیرت پر کام کرنے والے کو کتب سیرت کی زیادہ حاجت ہونہ تو ہر شخص سب کتب خرید سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے ہر ایک کو آپ ی دلچسپی یا ضرورت تک محدود رہنا ہوتا ہے.

ویسے فقہ میں بھی 8 کے قریب کتب وہ ہیں جو پہلی بار شائع ہو کر پہنچی ہیں جن

میں سے چار یہ ہیں

ذخیرہ برہانیہ

محیط رضوی

جواہر الفتاوی

جامع المضمرات شرح قدوری

اور ان چار کتب کی قیمت صرف 45 سے پچاس ہزار کے درمیان ہے😇

ایک توڈالر مہنگا ہو چکا ہے دوسرا بیروت سے یہ کتب شائع ہو کر آتی ہیں وہاں کے حالات ایسے ہیں کہ مال سستا ہونے کے بجائے مہنگا ہوتا جا رہا ہے.

میں نے جو کتب خریدی ان مین سب سے مہنگی کتاب 20 ہزار کی ہے جو کہ 8 جلدوں پر مشتمل ہے امام سیوطی کی کتاب خصائص کبری ہر تحقیق و حاشیہ ہے گویا ایک جلد ڈھائی ہزار کی پڑی ہے

ویسے تو سب سے مہنگی کتب جو مکتبہ پر دستیاب ہیں اگر ان کی بات کریں تو ان مین 52 جلد والی مسند امام احمد 72 ہزار کی

ارشاد الساری شرح بخاری پچاس ہزار سے زیادہ کی

اور 72 جلد والی تاریخ دمشق المعروف ابن عساکر کا تو پوچھیں ہی مت

فقہ کے علاوہ تفسیر حدیث و شروح حدیث اور سیرت پر بھی بہت عمدہ کتب دیکھنے کو ملیں المدینہ العلمیہ کے مولانا کاشف مدنی نے امام اہل سنت رضی اللہ عنہ کے ہدایہ پر لکھے گئے حواشی پر کام کیا تھا اور میرے مشورے پر فتاوی رضویہ سے بھی ہدایہ پر کلام کو حاشیہ کے ساتھ لگایا ہے یہ کتاب بھی پہلی بار بیروت سے شائع ہو کر پہنچی ہے میں نے بھی خریدی ہے .

چند ماہ قبل یعنی یکم رمضان کو پشاور کے مکتبوں پر پہلی بار جانا ہوا تھا وہاں سے بھی دو کارٹن خریدنے کا موقع ملا تھا حرص تو زیادہ کی تھی لیکن جہاز میں اس سے زیادہ لانا ممکن نہیں تھا

مفتی سرحد مولانا ایوب پشاوری صاحب جو امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے ہم عصر تھے ان کے رسائل جو دو جلدوں میں ہیں اور عربی میں وہیں سے شائع ہوئے تھے وہ دیکھ کر بڑی خوشی حاصل ہوئی تھی ان کتب پر چاہتے ہوئے بھی پوسٹ نا کر سکا اور بھی مفید کتب وہاں سے لایا تھا.

اس کے علاوہ کچھ کتب پچھلے ماہ مصر سے کچھ کتب پہنچی ہیں جن کو حاصل کرنے کی کوشش ترکی کا سفر کرنے سے پہلے کی تھی کیوں کہ بعض کا تعلق ترکی علماء مشائخ کی سوانح اور حالات زندگی سے تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کتب آئیں کیسے. جتنے کی کتب نہیں تھی اس سے زیادہ کا ڈاک خرچ پڑ رہا تھا

پچھلے ماہ ایک ساتھی آرہے تھے تو وہ لے کر آئے

جولائی 2021 ہی میں مصر میں عالمی کتب میلہ تھا جو دینی کتب کی خریداری کا سب سے بڑا فورم ہوتا ہے بلکہ دیگر کتب بھی ہوتی ہیں اور یومیہ لاکھوں لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں

چاہتے ہوئے بھی اس میں اب تک شرکت نہیں ہو پائی ہے

ایک تو اس سال ٹکٹ صرف سوا لاکھ کا تھا کیوں کہ ایمریٹس بند ہے صرف ایک ائیر لائن جا رہی تھی پاکستان سے وایا ہو کر

دوسرا یہ کہ آج کل کسی بھی ملک میں جانا آسان ہے لیکن نکلنا بہت مشکل ہے پتا چلتا ہے کہ کرونا کی وجہ سے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں

میں ہمیشہ چار سے پانچ فن پر کتب خریدتا ہوں اس بار بھی کچھ کتب تفسیر کی

کچھ احادیث کی

کچھ فقہ پر

اور کچھ دیگر علوم و فنون پر لی ہیں

اس بار حسی طور پر جو سب سے خوبصورت کتب مجھے نظر آئی وہ

دار المنہاج جدہ سے شائع ہونے والی کتاب رسالہ قشیریہ تھی کمال طباعت ہے اور اس سے بڑھ کر کمال جلد ہے ہاتھ سے کتاب جدا کرنے کو دل ہی نہیں چاہتا

اس کے علاوہ اسی مکتبہ کی شمائل ترمذی کو بھی بہت ہی محبت سے شائع کیا گیا ہے دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں

رسالہ قیشریہ کی جلد اور طباعت کی نقل ہے التنبیہ جو دار التقوی دمشق نے شائع کی ہے جو الحکم العطائیہ کی شرح ہے

الحکم پرمیں اسباق تصوف کے نام سے پروگرام کر چکا ہوں اور اس کتاب پر التنبیہ نامی یہ شرح ایک نیا اضاف ہے اس سے قبل الحکم پر تقریبا 15 شروحات میرے پاس موجود ہیں الحمد للہ رب العالمین

اس کے علاوہ ایک جلد میں تفسیر بیضاوی اتنی عمدہ شائع ہوئی ہے کہ اسے دیکھتے ہی دل باغ باغ ہو گیا.

مراکش کے دار الحدیث الکتانیہ کی کتب پہلی بار آئیں ہیں اس مکتبہ سے علامہ عبد الحی کتانی علیہ الرحمہ کی کتب کے علاوہ بہت ساری کتب شائع ہوئی ہیں خاص کر عقائد اہل سنت کے دفاع و تائید پر.

بات کتب کی چل رہی ہے تو. کتبہ اعلی حضرت نے مولانا أجمل کا شکریہ بھی ادا کرتا چلوں جنہوں نے اپنے مکتبے سے شائع ہونے والا فتاوی قاضی خان کا ترجمہ مجھے لاہور سے بھجوایا تھا جو کہ ان کے مکتبے نے پہلی بار شائع کیا ہے.

عید کی تعطیلات میں کچھ مختلف مطالعہ کرنے کا سلسلہ ہوا

اب جو تحریر آئے گی یہ کوئی ڈیڑھ ہفتہ پہلے لکھی تھی لیکن پھر نامکمل ہی چھوڑ دی کہ اس کو شائع کرنے کا کیا فائدہ ہوگا

لیکن آج باتین کتب کی ہو رہی ہیں تو اسے بھی شامل کر رہا ہوں

اور یہ اتنی بھی نا مکمل نہیں ہے عید کی چھٹیوں میں کئی کتب پڑھیں جن میں سے ایک پر تبصرہ ملاحظہ ہو.

عید سے ایک ہفتہ قبل ہی تحقیقات شرعیہ کا مشورہ تھا جس پر بہت تفصیلی مقالہ لکھا اور اس مقالہ سے دوگنا کام بحث کے مختلف اجزاء اور موضوعات پر کیا جو الگ سے تحریری کام کی صورت ہے صرف فقہ کی تقریبا ڈیرھ سو کتب کو متعلقہ مقامات سے پڑھ کر نتائج اخذ کیے اس کے علاوہ بھی کئی تحقیقی کام جاری تھے جس کی وجہ سے ذہن اکتاہٹ کا شکار تھا

عید کی چھٹیوں میں کچھ مختلف کتب پڑھنے کا پلان کیا تھا

عید رات سے لے کر عید کے دن مغرب تک ایک کتاب ختم کی جو عید سے دو ہفتے قبل ہی خریدی تھی

In The Search of Identity

اپنی پہچان کی تلاش میں

اصل کتاب انگریزی میں ہے جو کہ 1978 کی دہاہی میں امریکہ سے شائع ہوئی اور مصر کے سابق صدر انور السادات کی آب بیتی پر مشتمل ہے یہ کتاب مصنف کی حیات میں شائع ہوئی مصنف کو 1981 میں قتل کر دیا گیا جس کے بعد مصر کی صدارت حسنی المبارک نے سنبھالی

میں نے اس کتاب کے اردو ترجمہ کا مطالعہ کیا

کتاب میں جہاں کسان کے گھر پیدا ہونے سے لے کر ایوان صدارت تک پہنچنے کی داستان ہی وہیں

تاریخ کے بہت سارے پہلو کو یہ کتاب کور کرتی ہے

چند چیزیں بیان کرتا ہوں

مصر ایک یورپی کالونی تھا 1952 میں جمال ناصر نے فوجی تسلط کے ذریعے شاہ فاروق کی حکومت کا خاتمہ کیا جمال ناصر اور انور السادات بچپن کے دوست تھے

ایک وقت ایک بھی آیا کہ شام اور مصر میں الحاق ہو گیا تھا دو تین سال یہ سلسلہ جاری رہا یعنی دونوں ملک ایک ہو گیے تھے اسمبلی کا اسپیکر بھی ایک تھا اور صدر بھی

کتاب کا صرف ایک کوارٹر حصہ مصنف انور سادات کے دور صدارت کی باتوں پر مشتمل ہے لیکن زیادہ تر مصری صدر جمال ناصر کے گرد گھومتا ہے اور کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف مسلم ممالک کے حکمران آپس ہی میں کس قدر تنازعات اور دشمنی کا شکار رہے اور عالمی قوتوں کے کس قدر محتاج رہے کبھی ایک سپر پاور کے محتاج ہوئے تو کبھی دوسری سپر پاور کے اور کس کس طرح وقت پر دھوکہ دیا گیا

مصنف نے اپنی وزراء میں سےمیر صادق و میر جعفر کے کرداروں پر مشتمل افراد کا تذکرہ بھی کیا ہے جو کسی اور ملک کے ایجنڈے پر کام کرتے تھے

اس کتاب کو لیتے اور مطالعہ کا آغاز کرتے وقت کا ذہن میں یہ تھا کہ مصری حالیہ تاریخ سے آگاہی ہوگی لیکن پوری کتاب محلاتی سازشوں کے گرد گھومتی ہے سو جو میں نے سوچا تھا وہ اس میں نہیں مل سکا.